aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

در صفت انبہ

مرزا غالب

در صفت انبہ

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    دلچسپ معلومات

    مثنوی درصفت انبہ ۔۱۸۵۵ء ۔ ۔۔ مرزا فخرو یعنی رمز دہلوی بھی ذوق کی زندگی میں ان سے اصلاح لیتے رہے ، مرزا فخرو بہادر شاہ ظفر کے چوتھے بیٹے تھے ۔ذوق کے انتقال کے بعد مرزا بھی غالب سے مشورہ کرنے لگے ۔ غالب سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔۔ انھوں نے غالب کے لئے سالانہ چار سو وظیفہ بھی مقرر کیا تھا ۔ غالب کے فارسی کلام میں مرزا فخرو کی مدح میں تین قصیدے موجود ہیں ، ایک بار مرزا فخرو نے غالب کو آموں کا تحفہ بھجوایا تو غالب نے اس کے شکریے میں یہ مثنوی کہی ۔

    ہاں دل دردمند زمزمہ ساز

    کیوں نہ کھولے در خزینۂ راز

    خامے کا صفحے پر رواں ہونا

    شاخ گل کا ہے گلفشاں ہونا

    مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے

    نکتہ ہاے خرد فزا لکھیے

    بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے

    خامہ نخل رطب فشاں ہوجائے

    آم کا کون مرد میداں ہے

    ثمر و شاخ گوے و چوگاں ہے

    تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں

    آئے یہ گوے اور یہ میداں

    آم کے آگے پیش جاوے خاک

    پھوڑتا ہے جلے پھپولے تاک

    نہ چلا جب کسی طرح مقدور

    بادۂ ناب بن گیا انگور

    یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے

    شرم سے پانی پانی ہونا ہے

    مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے

    آم کے آگے نیشکر کیا ہے

    نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ نہ بار

    جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار

    اور دوڑائیے قیاس کہاں

    جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں

    جان میں ہوتی گریہ شیرینی

    کوہکن باوجود غمگینی

    جان دینے میں اس کو یکتا جان

    پر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان

    نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر

    کہ دواخانۂ ازل میں مگر

    آتش گل پہ قند کا ہے قوام

    شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام

    یہ یہ ہو گا کہ فرط رافت سے

    باغبانوں نے باغ جنت سے

    انگبیں کے بحکم رب الناس

    بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس

    یا لگا کر خضر نے شاخ نبات

    مدتوں تک دیا ہے آب حیات

    تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل

    ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل

    تھا ترنج زر ایک خسرو پاس

    رنگ کا زرد پر کہاں بو باس

    آم کو دیکھتا اگر اک بار

    پھینک دیتا طلاے دست افشار

    رونق کار گاہ برگ و نوا

    نازش دودمان آب و ہوا

    رہرو راہ خلد کا توشہ

    طوبی و سدرہ کا جگر گوشہ

    صاحب شاخ و برگ و بار ہے آم

    ناز پروردۂ بہار ہے آم

    خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو

    نو بر نخل باغ سلطاں ہو

    وہ کہ ہے والی ولایت عہد

    عدل سے اس کے ہے حمایت عہد

    فخر دیں عز شان و جاہ جلال

    زینت طینت و جمال کمال

    کار فرماے دین و دولت و بخت

    چہرہ آراے تاج و مسند و تخت

    سایہ اس کا ہما کا سایہ ہے

    خلق پر وہ خدا کا سایہ ہے

    اے مفیض وجود سایہ و نور

    جب تلک ہے نمود سایہ و نور

    اس خداوند بندہ پرور کو

    وارث گنج و تخت و افسر کو

    شاد و دلشاد و شادماں رکھیو

    اور غالب پہ مہرباں رکھیو

    مأخذ:

    دیوان غالب جدید (Pg. 463)

    • مصنف: مرزا غالب
      • ناشر: مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال
      • سن اشاعت: 1982

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے