Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گلزار نسیم

MORE BYپنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی

    ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری

    ثمرہ ہے قلم کا حمد باری

    کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر

    حمد حق و مدحت پیمبر

    پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے

    یعنی کہ مطیع پنج تن ہے

    ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی

    کرتا ہے زباں کی پیش دستی

    خواستگاری جناب باری سے مثنوی گلزار نسیم کی ترتیب کے واسطے

    یارب! میرے خامے کو زباں دے

    منقار ہزار داستاں دے

    افسانہ گل بکاولی کا

    افسوں ہو بہار عاشقی کا

    ہر چند سنا گیا ہے اس کو

    اردو کی زباں میں سخن گو

    وہ نثر ہے، داد نظم دوں میں

    اس مے کو دو آتشہ کروں میں

    ہر چند اگلے جو اہل فن تھے

    سلطان قلمروسخن تھے

    آگے ان کے فروغ پانا:

    سورج کو چراغ ہے دکھانا

    پر، عجز سخن سدا ہے باقی

    دریا نہیں کار بند ساقی

    طعنے سے زبان نکتہ چیں روک

    رکھ لے مری اہل خامہ میں نوک

    خوبی سے کرے دلوں کو تسخیر

    نیرنگ نسیم باغ کشمیر

    نقطے، ہوں سپند خوش بیانی

    جدول، ہو حصار بحر خوانی

    جو نکتہ لکھوں کہیں نہ حرف آئے

    مرکز پہ کشش مری پہنچ جائے

    داستان تاج الملوک شاہ زادے اور زین الملوک باشاہ مشرق کی

    روداد زمان پاستانی

    یوں نقل ہے خامے کی زبانی

    پورب میں ایک تھا شہنشاہ

    سلطان زین الملوک ذی جاہ

    لشکر کش و تاج دار تھا وہ

    دشمن کش و شہر یار تھا وہ

    خالق نے دیے تھے چار فرزند

    دانا، عاقل، ذکی، خردمند

    نقشہ ایک اور نے جمایا

    پس ماندہ کا پیش خیمہ آیا

    امید کے نخل نے دیا بار

    خورشید حمل ہوا نمودار

    وہ نور کہ صدقے مہرانور

    وہ رخ کہ نہ ٹھہرے آنکھ جس پر

    نور آنکھ کا کہتے ہیں پسر کو

    چشمک تھی نصیب اس پدر کو

    خوش ہوتے ہی طفل مہ جبیں سے

    ثابت یہ ہوا ستارہ بیں سے

    پیارا یہ وہ ہے کہ دیکھ اسی کو

    پھر دیکھ نہ سکیے گا کسی کو

    نظروں سے گرا وہ طفل ابتر

    مانند سر شک دیدہ تر

    پردے سے نہ دایہ نے نکالا

    پتلی سا نگاہ رکھ کے پالا

    تھا افسر خسرواں وہ گل فام

    پالا، تاج الملوک رکھ نام

    جب نام خدا جواں ہوا وہ

    مانند نظرواں ہوا وہ

    آتا تھا شکار گاہ سے شاہ

    نظارہ کیا پدرنے ناگاہ

    صاد آنکھوں کے دیکھ کے پسر کی

    بینائی کے چہرے پر نظر کی

    مہر لب شہ ہوئی خموشی

    کی نور بصر سے چشمک پوشی

    دی آنکھ جو شہ نے رونمائی

    چشمک سے نہ بھائیوں کے بھائی

    ہر چند کے بادشاہ نے ٹالا

    اس ماہ کو شہر سے نکالا

    گھر یہی ذکر تھا یہی شور

    خارج ہوا نور دیدہ کور

    آیا کوئی لے کے نسخہ نور

    لایا کوئی جاکے سرمۂ طور

    تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور

    بینہ نہ ہوا وہ دیدہ کور

    ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے

    مختار ہے، جس طرح نبا ہے

    جانا چاروں شاہ زادوں کا بہ تجویز کحال تلاش گل بکاولی کو

    پایا جو سفید چشم صفحا

    یوں میل قلم نے سرمہ کھینچا

    تھا اک کحال پیر دیریں

    عیسی کی تھیں اس نے آنکھیں دیکھیں

    وہ مرد خدا بہت کراہا

    سلطاں سے ملا، کہا کہ شاہا!

    ہے باغ بکاولی میں اک گل

    پلکوں سے اسی پہ مار چنگل

    خورشید میں یہ ضیا کرن کی

    ہے مہر گیا اسی چمن کی

    اس نے تو گل ارم بتایا

    لوگوں کو شگوفہ ہاتھ آیا

    شہ زادے ہوئے وہ چاروں تیار

    رخصت کیے شہ نے چار ناچار

    شاہانہ چلے وہ لے کے ہمراہ

    لشکر، اسباب، خیمے، خرگاہ

    وہ بادیہ گرد خانہ برباد

    یعنی تاج الملوک ناشاد

    میدان میں خاک اڑا رہا تھا

    دیکھا تو وہ لشکر آرہا تھا

    پوچھا تم لوگ خیل کے خیل

    جاتے ہو کدھر کو صورت سیل؟

    بولا لشکر کا اک سپاہی

    جاتی ہے ارم کو فوج شاہی

    سلطاں زین الملوک شہ زور

    دیدار پسر سے ہوگیا کور

    منظور علاج روشنی ہے

    مطلوب گل بکاولی ہے

    گل کی جو خبر سنائی اس نے

    گلشن کی ہوا سمائی اس کو

    ہمرہ کسی لشکری کے ہوکر

    قسمت پہ چلا یہ نیک اختر

    غلام ہونا چاروں شاہ زادوں کا چوسر کھیل کر دلبر بیسوا سے

    نقطوں سے قلم کی مہر ہ بازی

    یوں لاتی ہے رنگ بد طرازی

    یک چند پھرا کیا وہ انبوہ

    صحرا صحرا و کوہ در کوہ

    بلبل ہوئے سب ہزار جی سے

    گل کا نہ پتا لگا کسی سے

    وارد ہوئے ایک جگہ سر شام

    فردوس تھا اس مقام کا نام

    اک نہر تھی شہر کے برابر

    ٹھٹکے سیارے کہکشاں پر

    اک باغ تھا نہر کے کنارے

    جویاے گل اس طرف سدھارے

    دلبر نام ایک بیسوا تھی

    اس ماہ کی واں محل سرا تھی

    دروازے سے فاصلے پہ گھر تھا

    نقارہ چو بدار در تھا

    بے جا و بجا نہ سمجھے ان جان

    نقارہ بجا کے ٹھہرے نادان

    آواز پہ وہ لگی ہوئی تھی

    آپ آن کے ٹھاٹھ دیکھتی تھی

    جس شخص کو مال دار پاتی

    باہر سے اسے لگا کے لاتی

    بٹھلا کے، جوے کا ذکر اٹھا کر

    چوسر میں وہ لوٹتی سراسر

    جیت اس کی تھی، ہاتھ جو کچھ آتا

    اس کا کوئی ہتکھنڈا نہ پاتا

    بلی کا سر چراغ داں تھا

    چوہا پاسے کا پاسباں تھا

    الٹاتے اڑی پہ، قسمت آسا

    بلی، جو دیا موش، پاسا

    جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں

    قسمت نے پھنسائے یہ بھی چاروں

    صیادنی لائی پھانس کر صید

    کرسی پہ بٹھائے نقش امید

    گھاتیں ہوئیں دل ربائیوں کی

    باتیں ہوئیں آشانائیوں کی

    رنگ اس کا جما، تو لا کے چوسر

    کھیلی وہ کھلاڑ بازی بد کر

    وہ چھوٹ پہ تھی، یہ میل سمجھے

    بازی چوسر کی کھیل سمجھے

    مغرور تھے مال و زر پہ کھیلے

    ساماں ہارے تو سر پہ کھیلے

    بدبختی سے آخر جوا تھا

    بندہ ہونا بدا ہوا تھا

    دو ہاتھ میں چاروں اس نے لوٹے

    پنچے میں پھنسے تو چھکے چھوٹے

    ایک ایک سے رات بھر نہ چھوٹا

    پوپھٹتے ہی جگ ان کا ٹوٹا

    زنداں کو چلے مچل مچل کر

    نردوں کی طرح پھرے نہ چل کر

    لشکر میں سے جوگیا سوئے شہر

    پانی سا پھرا نہ جانب نہر

    جیتنا تاج الملوک کا دلبر بیسوا کو اور چھوڑ کر روانہ ہونا تلاش گل بکاولی میں

    لانا زر گل جو ہے ارم سے

    یوں صفحے سے نقش ہے قلم سے

    وہ ریگ رواں کا گرد لشکر

    یعنی تاج الملوک ابتر

    حیران ہوا کہ یا الٰہی!

    لشکر پہ یہ کیا پڑی تباہی

    اٹھا کہ خبر تو لیجے چل کر

    گزرا در باغ بیسوا پر

    حیران تھا یہ بلند پایہ

    نکلی اندر سے ایک دایہ

    لڑکا کوئی گھو گیا تھا اس کا

    ہم شکل یہ مہ لقا تھا اس کا

    بولی وہ کہ نام کیا ہے تیرا

    فرزند اسی شکل کا تھا میرا

    بولا وہ کہ نام تو نہیں یاد

    طفلی میں ہوا ہوں خانہ برباد

    لیکن یہ میں جانتا ہوں دل گیر

    مادر تھی مری بھی ایسی ہی پیر

    بیٹا وہ سمجھ کے جی سے اس کو

    گھر لائی ہنسی خوشی سے اس کو

    چلتے تھے ادھر سے دو جواری

    ایک ایک کی کر رہا تھا خواری

    کہتے تھے: فریب دو گے کیا تم

    شہ زادے نہ ہم، نہ بیسوا تم

    ذکر اپنے برادروں کا سن کر

    بولا وہ عزیز، سن تو مادر!

    کون ایسی کھلاڑ بیسوا ہے

    شہ زادوں کو جس نے زچ کیا ہے؟

    بولی وہ کہ ہاں جوا ہے بدکام

    دلبر اک بیسوا ہے خود کام

    بلی پہ چراغ رکھ کےشب کو

    چوسر میں وہ لوٹتی ہے سب کو

    پاسے کی ہے کل چراغ کے ساتھ

    وہ بلی کے سر، یہ چوہے کے ہاتھ

    شہ زادے کہیں کے تھے بد اقبال

    بندے ہوئے، ہار کر زر و مال

    بھائی، جوش خوں کہاں جائے

    صدمہ ہوا، درد سے کہا ہائے!

    پاسے کا، چراغ کا الٹ پھیر

    سوجھا نہ اانھیں، یہ دیکھو اندھیر

    سوچا وہ کہ اب تو ہم ہیں آگاہ

    جیتے ہیں، تو جیت لیں گے ناگاہ

    اک بلی جھپٹی چوہے کو بھانپ

    نیولے تے بھگا دیا دکھا سانپ

    سمجھا وہ کہ ہے شگوں نرالا

    نیولا پکڑ آستیں میں پالا

    چوسر ہی کے سیکھنے کو اکثر

    گھوما وہ بہ رنگ نرد گھر گھر

    اک روز اسے مل گیا امیر ایک

    وہ صاحب جاہ دل سے تھا نیک

    اشراف سجمھ کے لے گیا گھر

    بخشا اسے اسپ و جامہ و زر

    اس گل کے ہاتھ میں جو زر آیا

    جاں بازی کو سوے دلبر آیا

    ملتی تھی کھلاڑ ڈنکے کی چوٹ

    نقارہ و چوب میں چلی چوٹ

    آواز وہ سن کے در پر آئی

    ہمرہ اسے لے کے اندر آئی

    کام اس کا تھا بس کہ کھیل کھانا

    چوسر کا جما وہ کارخانہ

    وہ چشم و چراغ بیسوا کے

    کرنے لگے تاک جھانک آ کے

    نیولا، کہ وہ مار آستیں تھا

    چٹکی کے بجاتے ہی وہیں تھا

    بلی تو چراغ پا تھی خاموش

    بل ہو گیا موش کو فراموش

    ہنس ہنس کے حریف نے رلایا

    مانند چراغ اسے جلایا

    بارے بہ ہزار بددماغی

    لی خضر نے غول سے چراغی

    پا سے چلی نہ جعل سازی

    اجڑی وہ، بسا بسا کے بازی

    سب ہار کے نقد و جنس، بارے

    جیتے ہوئے بندے بد کے ہارے

    بنیاد جو کچھ تھی، جب گنوائی

    تب خود وہ کھلاڑ، مہرے آئی

    پھر پاسے کی نہ پاس داری

    ہمت کی طرح وہ دل سے ہاری

    پاسے کی بدی ہے آشکارا

    راجانل سلطنت ہی ہارا

    دانا تو کرے کب اس طرف میل

    ہارا ہے جوے کے نام سے بیل

    ہارے، دیکھا جو بیسوا نے

    بندہ کیا غیر کا خدا نے

    سوچی کہ نہ اب بھی چال رہیے

    شادی کا مزہ نکال رہیے

    بولی نہ ہزار عجز و زاری

    تم جیتے میاں میں تم سے ہاری

    لونڈی ہوں، نہیں عدول مجھ کو

    خدمت میں کرو قبول مجھ کو

    بولا وہ کہ سن، یہ ہتکھنڈے چھوڑ

    نقارہ در کو چوب سے توڑ

    یہ مال، یہ زر، یہ جیتے بندے

    یوں ہی یہیں رکھ بجنس چندے

    بالفعل ارم کو جاتے ہیں ہم

    انشاء اللہ آتے ہیں ہم

    بولی وہ۔ سنو تو بندہ پرور!

    گلزار ارم ہے پریوں کا گھر

    انسان و پری کا سامنا کیا!

    مٹھی میں ہوا کا تھا منا کیا!

    شہ زادہ ہنسا، کہا کہ دلبر!

    کچھ بات نہیں، جو رکھیے دل پر

    انسان کی عقل اگر نہ ہو گم

    ہے چشم پری میں جاے مردم

    یہ کہہ کے اٹھا، کہا کہ لو جان!

    جاتے ہیں، کہا: خدا نگہ بان!

    دولت تھی اگر چہ اختیاری

    پا مردی سے اس پہ لات ماری

    جز جیب، نہ مال پر پڑا ہاتھ

    جز سایہ، نہ کوئی بھی لیا ساتھ

    درویش تھا بندۂ خدا وہ

    اللہ کے نام پر چلا ہو

    پہنچنا تاج الملوک کا سرنگ کھدواکر باغ بکاولی میں اور گل لے کر پھرنا

    کرتا ہے جو طے سواد نامہ

    یوں حرف، ہیں نقش پاے خامہ

    وہ دامن دشت شوق کا خار

    یعنی تاج الملوک دل زار

    اک جنگلے میں جا پڑا جہاں گرد

    صحراے عدم بھی تھا جہاں، گرو

    سایے کو پتا نہ تھا شجر کا

    عنقا تھا، نام جانور کا

    مرغان ہوا تھے ہوش راہی

    نقش کف پا تھے ریگ ماہی

    وہ دشت کہ جس میں پر تگ و دو

    یا ریگ رواں تھی یا وہ رہ رو

    ڈانڈا تھا ارم کے بادشاہ کا

    اک دیو تھا پاسباں بلا کا

    دانت اس کے: گور کن قضا کے

    دو نتھنے: رہ عدم کے ناکے

    سر پر پایا بلا کو اس نے

    تسلیم کیا قضا کو اس نے

    بھوکا کئی دن کا تھا وہ ناپاک

    فاقوں سے رہا تھا پھانک کر خاک

    بے ریشہ یہ طفل نوجواں تھا

    حلوا بے دود بے گماں تھا

    بولا کہ چھکوں گاہیں یہ انساں

    اللہ اللہ! شکر، احساں!

    شہ زادہ کہ منہ میں تھا اجل کے

    اندیشے سے رہ گیا دہل کے

    پل مارنے کی ہوئی جو دیری

    سبحان اللہ شان تیری!

    اشتر کئی جاتے تھے ادھر سے

    پر آردو روغن و شکر سے

    وہ دیو لپک کے مار لایا

    غراتے ہوئے شکار لایا

    اونٹوں کی جو لو تھیں دیو لایا

    دم اس کا نہ اس گھڑی سمایا

    تیورا کے وہیں وہ بار بر دوش

    بیٹھا تو گرا، گرا تو بے ہوش

    چاہا اس نے کہ مار ڈالو

    یا بھاگ سکو تو راستہ لو

    وہ اونٹ تھے کاروانیوں کے

    سب ٹھاٹھ تھے میہانیوں کے

    میدہ بھی، شکر بھی، گھی بھی پایا

    خاطر میں یہ اس بشر کی آیا

    میٹھا اس دیو کو کھلاؤ

    گڑ سے جو مرے، تو زہر کیوں دو

    حلوے کی پکا کے اک کڑھائی

    شیرینی دیو کو چڑھائی

    ہر چند کہ تھا وہ دیو کڑوا

    حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا

    کہنے لگا: کیا مزہ ہے دل خواہ!

    اے آدمی زاد واہ وا واہ!

    چیز اچھی کھلائی تو نے مجھ کو

    کیا اس کے عوض میں دوں میں تجھ کو

    بولا وہ کہ پہلے قول دیجے

    پھر جو میں کہوں، قبول کیجے

    وہ ہاتھ پر اس کے مار کر ہاتھ

    بولا کہ ہے قول جان کے ساتھ

    بولا وہ کہ قول اگر یہی ہے

    بد عہدی کی پر نہیں سہی ہے

    گلزار ارم کی ہے مجھے دھن

    بولا وہ: ارے بشر وہ گلبن!

    خورشید کے ہم نظر نہیں ہے

    اندیشے کا واں گزر نہیں ہے

    واں موج ہوا: ہوا پہ اژدر

    واں ریگ زمیں: زمیں پہ اخگر

    ہوتا نہ جو قول کا سہارا

    بچتانہ یہیں تو خیر، ہارا

    رہ جا، میرا بھائی ایک ہے اور

    شاید کچھ اس سے بن پڑے طور

    اک ٹیکرے پر گیا، بلایا

    وہ مثل صدائے کوہ آیا

    حال اس سے کہا کہ قول ہارا

    ہے پیر، یہ نوجواں ہمارا

    مشتاق ارم کی سیر کا ہے

    کوشش کرو، کم خیر کا ہے

    حمالہ نام دیونی ایک

    چھوٹی بہن اس کی تھی بڑی نیک

    خط اس کو لکھا بہ ایں عبارت

    اے خواہر مہرباں! سلامت

    پیارا ہے یہ میرا آدمی زاد

    رکھیو اسے، جس طرح مری یاد

    انسان ہے، چاہے کچھ جو سازش

    مہمان ہے، کیجیو نوازش

    خط لے کے، بشر کو لے اڑا دیو

    پہنچا حمالہ پاس بے ریو

    بھائی کا جو خط بہن نے پایا

    بھیجے ہوئے کو گلے لگایا

    اس دیونی پاس اک حسیں تھی

    زنبور کے گھر میں انگبیں تھی

    محمودہ نام، دخت آدم

    لے ائی تھی دیونی دے کے دم

    جوڑا ہم جنس کے ہاتھ آیا

    محمودہ کے گلے لگایا

    دن بھر تو الگ تھلگ ہی تھے وہ

    دو وقت سے شام کو ملے وہ

    تھے ضببط و حیا کے امتحاں میں

    پردہ رہا ماہ میں، کتاں میں

    آپس میں کھلے نہ شرم سے وہ

    خاطر کی طرح گرہ رہے وہ

    بولا وہ فسردہ دل سحر گاہ

    کیا سرد ہوا ہے واہ وا واہ!

    بولی وہ کہ ہونے کو ہوا ہے

    جو غنچے کو گل کرے، صبا ہے

    بولا وہ، یہی تو چاہتا ہوں

    گل پاؤں، تو میں ابھی ہوا ہوں

    پیراہن گل کی بو، تھی مطلوب

    یوسف نے کہا وہ حال یعقوب

    اول کہی بد نگاہی اپنی

    بعد اس کے وہ سب تباہی اپنی

    کھولی تھی زبان منہ اندھیرے

    کہتے سنتے اٹھے سویرے

    پوچھا حمالہ نے: میری جان!

    ہم جنس ملا، نکالے ارمان

    بولی وہ کہ کہتے آتی ہے شرم

    دل سرد رہا، بغل ہوئی گرم

    ناکامی کے جب وہ طور سمجھی

    وہم اس کو ہوا، کچھ اور سمجھی

    پوچھا کہ بتا تو درد، لیکن

    تم چاہو، تو ہے دوا بھی ممکن

    وہ بولی: جو تو کہے زباں سے

    تارے لے آؤں آسماں سے

    چہرے کو چھپا کے زیر چادر

    محمودہ نے کہا کہ مادر!

    باپ اس کا ہے اندھے پن سے مجہول

    مطلوب بکاولی کا ہے پھول

    دل داغ اس کا براے گل ہے

    نرگس کے لیے ہواے گل ہے

    ساعی تھی بہ دل یہ کہنے والی

    راہ اس نے سرنگ کی نکالی

    دیووں کہا کہ چوہے بن جاؤ

    تا باغ ارم سرنگ پہنچاؤ

    سن حاجت نقب بہر گل گشت

    کترا چوہوں نے دامن دشت

    پوشیدہ زمیں کے دل میں کی راہ

    حد باندھ کے، خوش پھرے اسی راہ

    جب مہر تہ زمیں سمایا

    اس نقب کی رہ وہ آدم آیا

    صحن چمن ارم میں اک جا

    بوٹا سا تہ زمیں سے نکلا

    کھٹکا جو نگاہ بانوں کا تھا

    دھڑکا یہی دل کا کہہ رہا تھا

    گوشے میں کوئی لگا نہ ہووے!

    خوشہ کوئی تاکتا نہ ہووے!

    گو باغ کے پاسباں غضب تھے

    خوابیدہ بہ رنگ سبزہ سب تھے

    نرگس کی کھلی نہ آنکھ یک چند

    سو سن کی زباں خدانے کی بند

    خوش قدر وہ چلا گل وہ سمن میں

    شمشاد رواں ہوا چمن میں

    ایوان بکاولی جدھر تھا

    حوض آئنہ دار بام و در تھا

    رکھتا تھا وہ آب سے سوا تاب

    چندے خورشید، چندے مہتاب

    پھول اس کا، اندھے کی دوا تھا

    رشک جام جہاں نما تھا

    پانی کے جو بلبلوں میں تھا گل

    پہنچا لب حوض سے نہ چنگل

    پوشاک اتار، اتر کے لایا

    پھولا نہ وہ جامے میں سمایا

    گل لے کے بڑھا ایاغ برکف

    چوری سے چلا چراغ برکف

    بالا دری واں جو سوتے کی تھی

    سو خواب گہہ بکاولی تھی

    گول اس کے ستوں: تھے ساعد حور

    چلمن: مژگان چشم مخمور

    دکھلاتا تھا وہ مکان جادو

    محراب سے ، درسے چشم و ابرو

    پردہ جو حجاب سا اٹھایا

    آرام میں اس پری کو پایا

    بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی

    چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی

    سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی

    برجوں پہ سے چاندنی تھی سر کی

    لپٹے تھے جو بال کروٹوں میں

    بل کھا گئی تھی کمر، لٹوں میں

    چاہا کہ بلا گلے لگائے

    سوتے ہوئے فتنے کو جگائے

    سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی

    ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی

    یہ پھول، انھی اژدہوں کا ہے من

    یہ کالے، چراغ کے ہیں دشمن

    گل چھن کے، ہنسی نہ ہوئے بلکل

    خندہ نہ ہو برق حاصل گل

    پھر سمجھیں گے، ہے جو زندگانی

    کچھ نام کو رکھ چلو نشانی

    انگشتری اپنی اس سے بدلی

    مہر خط عاشقی سندلی

    آہستہ پھر وہ سر و بالا

    سایہ بھی نہ اس پری پہ ڈالا

    ہیبت سا زمیں کے دل میں آیا

    اندیشے کی طرح سے سمایا

    جب نقب افق سے مہر تاباں

    نکلا، تو وہ ماہ روشتاباں

    گل ہاتھ میں مثل دست انساں

    دونوں تھیں اس کی منتظرواں

    گل لے کے جب آملا وہ گل چیں

    اس نقب کی رخنہ بندیاں کیں

    آوارہ ہونا بکاولی کا تاج الملوک گل چیں کی تلاش میں

    گل کا جو الم چمن چمن ہے

    یوں بلبل خامہ نعرہ زن ہے

    کل چیں نے وہ پھول جب اڑایا

    اور غنچہ صبح کھل کھلایا

    وہ سبزہ باغ خواب آرام

    یعنی وہ بکاولی گل اندام

    جاگی مرغ سحر کے غل سے

    اٹھی نکہت سی فرش گل سے

    منہ دھونے جو آنکھ ملتی آئی

    پرآب وہ چشم حوض پائی

    دیکھا، تو وہ گل ہوا ہوا ہے

    کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے

    گھبرائی کہ ہیں! کدھر گیا گل!

    جھنجلائی کہ کون دے گیا جل

    ہے ہے مرا پھول لے گیا کون!

    ہے ہے مجھے خار دے گیا کون

    ہاتھ اس پہ اگر پڑا نہیں ہے

    بو ہو کے تو پھول اڑا نہیں ہے

    نرگس! تو دکھا کدھر گیا گل؟

    سوسن! تو بتا کدھر گیا گل؟

    سنبل! مرا تازیانہ لانا

    شمشاد! انھیں سولی پر چڑھانا

    تھرائیں خواصیں صورت بید

    ایک ایک سے پوچھنے لگی بھید

    نرگس نے نگاہ بازیاں کیں

    سوسن نے زباں درازیاں کیں

    پتا بھی پتے کو جب نہ پایا

    کہنے لگیں: کیا ہوا خدایا!

    اپنوں میں سے پھول لے گیا کون

    بیگانہ تھا سبزے کو سوا کون!

    شبنم کے سوا چرانے والا

    اوپر کا تھا کون آنے والا

    جس کف میں وہ گل ہو، داغ ہو جائے

    جس گھر میں ہو، گل چراغ ہو جائے

    بولی وہ بکاولی کہ افسوس!

    غفلت سے یہ پھول پر پڑی اوس

    آنکھوں سے عزیز گل مرا تھا

    پتلی وہی چشم حوض کا تھا

    نام اس کا صبا! نہ لیتی تھی میں

    اس گل کو ہوا نہ دیتی تھی میں

    گل چیں کا جو ہائے ہاتھ ٹوٹا

    غنچے کے بھی منہ سے کچھ نہ پھوٹا

    اوخار! پڑا نہ تیرا چنگل

    مشکیں کس لیں نہ تو نے سنبل!

    او باد صبا! ہوا نہ بتلا

    خوش بو ہی سنگھا، پتا نہ بتلا

    بلبل! تو چہک، اگر خبر ہے

    گل! تو ہی مہک، بتا کدھر ہے؟

    لرزاں تھی زمیں یہ دیکھ کہرام

    تھی سبزے سے راست مو بر اندام

    انگلی لب جو پہ رکھ کے شمشاد

    تھا دم بہ خود، اس کی سن کے فریاد

    جو نخل تھا، سوچ میں کھڑا تھا

    جو برگ تھا، ہاتھ مل رہا تھا

    رنگ اس کا عرض لگا بدلنے

    گل برگ سے کف لگی ہو ملنے

    بدلے کی انگوٹھی ڈھیلی پائی

    دست آویز اس کے ہاتھ آئی

    خاتم، تھی نام کی نشانی

    انسان کی دست برد جانی

    ہاتھوں کو ملا، کہا کہ ہیہات!

    خاتم بھی بدل گیا ہے بدذات

    جس نے مجھے ہاتھ ہے لگایا

    وہ ہاتھ لگے کہیں خدایا!

    عریاں مجھے دیکھ کر گیا ہے

    کھال اس کی جو کھینچے، سزا ہے

    یہ کہہ کے، جنون میں غضب ناک

    خوں روئی، لباس کو کیا چاک

    گل کا سا لہو بھرا گریباں

    سبزے کا سا تار تار داماں

    دکھلا کے کہا سمن پری کو

    اب چین کہاں بکاولی کو

    تھی بس کہ غبار سے بھری وہ

    آندھی سی اٹھی، ہوا ہوئی وہ

    کہتی تھی پری کہ اڑکے جاتی

    گل چیں کا کہیں پتا لگاتی

    ہر باغ میں پھولتی پھری وہ

    ہر شاخ پہ جھولتی پھری وہ

    جس تختے میں مثل باد جاتی

    اس رنگ کے گل کی بو نہ پاتی

    بے وقت کسی کو کچھ ملا ہے!

    پتا کہیں حکم بن ہلا ہے!

    پہنچنا تاج الملوک کا ایک اندھے فقیر کے تکیے پر اور آزمانا گل کا

    پھر نا جو وطن کا، مدعا ہے

    اب صفحے پہ یو ں قلم پھرا ہے

    وہ گلشن مدعا کا گل چیں

    یعنی تاج الملوک حق بیں

    جس وقت گل اس چمن سے لایا

    محمودہ خوش ہوئی کہ آیا

    کہنے لگی: لو مراد پائی

    بولا وہ: جو یاں سے ہو رہائی

    گل کی وہ عرض کر آشکارا

    جوبن کی طرح اسے ابھارا

    جب دیو سیاہ شب سے ماہتاب

    رخصت ہوا، جیسے چشم سے خواب

    اور گل لیے آفتاب تاباں

    ہنگام سحر ہوا شتاباں

    وہ مہر وش اور اوہ ماہ پیکر

    اس دیونی پاس آتے مضطر

    گل کی وہ عرض جتائی اس کو

    رخصت کی طلب سنائی اس کو

    کیا کہتی وہ دیونی، کہا: جاؤ

    دیووں سے کہا کہ تخت لے آؤ

    بولے کہ کدھر چلو گے، کہہ دو

    فردوس کے رخ، کہا، ادھر کو

    وہ مڑ کے، ادھر کو اڑاکے آئے

    گلزار میں بیسوا کے لائے

    وقت سحر اور خنک ہوا تھی

    گل گشت چمن مین بیسوا تھی

    چار آنکھیں ہوئیں تو تھی شناسا

    قدموں پہ گری وہ سایہ آسا

    صدقے ہو کر کہا: خوش آئے

    جس گل کی ہوا لگی تھی، لائے؟

    ہمراہ یہ کون دوسری ہے؟

    سایہ ہے کہ ہم قدم پری ہے!

    بولا شہ زادہ: شکر ہے، ہاں

    پر ہے گل آرزو سے داماں

    محمودہ نام یہ جو ہیں ساتھ

    پھول ان کے سبب سے آگیا ہاتھ

    جیتا جو پھرا وہ رشک شمشاد

    قیدی کیے بیسوا نے آزاد

    جھوٹوں اس نے تھا ان کو تایا

    سچوں، کھوٹوں نے داغ کھایا

    دغا، تو چلے تفنگ سے وہ

    چھوٹے قید فرنگ سے وہ

    چھوڑا ہوس گل و چمن کو

    چاروں داغی پھرے وطن کو

    بندوں کو کشتیوں پہ کر بار

    سونپا سب ناخدا کو گھر بار

    جب متصل آگیا وطن کے

    خندے یاد آئے مرد و زن کے

    سوچا کہ میں خود ہوں خانہ برباد

    کیا جانیے کیا پڑے گی افتاد

    لازم ہے گل اپنے ہاتھ رکھیے

    موقع نہیں بھیڑ ساتھ رکھیے

    لنگر کا انہیں کیا اشارہ

    خود کشتی سے کر گیا کنارہ

    وہ پوربی، کر کے جو گیا بھیس

    جنگلے کی راہ سے چلا دیس

    تکیے پہ فقیر، پیر، اندھا

    اک گوشے میں آنکھیں مانگتا تھا

    تھا نقش قدم سا خاک رہ پر

    ٹھہرا وہ مسافر اس جگہ پر

    بے تجربہ تھی نمایش گل

    واجب تھی آزمایش گل

    پتلی پہ زر گل آزمایا

    سونے کو کسوٹی پر چڑھایا

    گل سے ہوئیں چشم کور تاباں

    ہو جیسے چراغ سے چراغاں

    منہ دیکھ کے اس نے دیں دعائیں

    پنجے سے مژہ کے لیں بلائیں

    گل کے جو اثرسے شادماں تھا

    گل چیں وہ ہوا سے ہم عناں تھا

    ملنا چاروں شہ زادوں کا اور چھن جانا گل بکاولی کا

    تاج الملوک سے اور بینا ہونا چشم زین الملوک کا

    ہے بس کہ یہ چرخ جور پیشہ

    یوں خار رہ قلم ہے ریشہ

    یہ جا کے، اسی جگہ پہ ناگاہ

    آپہنچے وہ چاروں غول گم راہ

    کہتے تھے کہ واہ رے مقدر!

    کس شک سے پھر کے جاتے ہیں گھر

    کیا رنگ زمانے نے دکھائے!

    گل لینے گئے تھے، داغ لائے

    کس منہ سے پدر کے آگے جائیں

    کیوں کر بے پھول منہ دکھائیں

    ٹھہرائی کہ اور پھول لے جایئں

    کحال کو بے وقوف بنایئں

    اک باد ہوائی توڑ کر پھول

    کہنے لگے پھول پھول کر غول

    کیا پھول ہے! کیا اثر ہے اس میں!

    ہو جاتی ہیں روشن اندھی آنکھیں

    وہ کور کہ ہو چکا تھا بینا

    دیکھا اس نے جو یہ قرینا

    بولا کہ یہ گل، وہ گل نہیں ہے

    اس پھول کی اور گل زمیں ہے

    وہ جوگی جو جاتے ہیں، اگر آئیں

    دکھلائیں وہ گل، تو آنکھیں کھل جائیں

    میں کور، ابھی ہو چکا ہوں بینا

    اندھا نہیں اب ہوا ہوں بینا

    چاروں کو تھی حسرت گل تر

    چو بائی ہوا کی طرح چل کر

    اس جوگی کے جب برابر آئے

    باہم کہا: دیکھو پھول لائے

    گل ہے کہ علاج نور ہے یہ!

    گل ہے کہ چراغ طور ہے یہ!

    جوگی، یعنی وہ شاہ زادہ

    بولا کہ بکو نہیں زیادہ

    پاتے اگر اس درخت کی چھاؤں

    رکھتے ہی نہ تم زمین پر پاؤں

    ڈینگ آپ کی سب فضول ہے یہ

    وہ گل یہ نہیں، وہ پھول ہے یہ

    یہ کہہ کے، جو جیب سے نکالا

    ان مفت بروں نے ہاتھ ڈالا

    قوت میں وہ چارتھے، یہ بے کس

    شورش میں وہ چار، موج، یہ خس

    غولوں نے بہ زور پھول اڑایا

    اس خضر کو راستہ بتایا

    گل پانے سے بس کہ سرخ رو تھے

    گھوڑوں پہ ہوا کے مثل بو تھے

    تعجیل سے رو بہ راہ آئے

    گل لے کے حضور شاہ آئے

    گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ

    آنکھوں کی طرح پھڑک گیا شاہ

    پنجے سے پلک کے پھول اٹھایا

    اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا

    نور آ گیا چشم آرزو میں

    آیا پھر آب رفتہ جو میں

    خورشید بصر گہن سے چھوٹا

    خیرات کے در کا قفل ٹوٹا

    دولت جو پاس تھی، لٹائی

    زر بخشا گل کی رونمائی

    ایک ایک کو اس قدر دیا زر

    محتاج، گدا، ہوئے تو نگر

    سجوائے طرب کے کار خانے

    بجوائے خوشی کے شادیانے

    پہنچنا بکاولی کا دارالخلافت زین الملوک میں اور وزیر ہو کر تاج الملوک کی تلاش میں رہنا

    گل چیں کا جو اب پتا ملا ہے

    یو شاخ قلم سے گل کھلا ہے

    وہ باد چمن چمن خراماں

    یعنی وہ بکاولی پریشاں

    گلشن سے جو خاک اڑاتی آئی

    اس شہر میں آتی آتی آئی

    دیکھا تو خوشی کے چہچہے تھے

    گل چیں کے شگوفے کھل رہے تھے

    گلبانگ زناں تھا، جو جہاں تھا

    ایک ایک، ہزار داستاں تھا

    پاتے ہی پتا، خوشی سے پھولی

    شاد ایسی ہوئی کہ رنج بھولی

    جادو سے بنی وہ آدمی زاد

    انسانوں میں آ ملی پری زاد

    سلطاں کی سواری آرہی تھی

    صورت جو نگاہ کی، پری تھی

    پوچھا: اے آدم پری رو!

    انساں ہے، پری ہے، کون ہے تو؟

    کیا نام ہے اور وطن کدھر ہے؟

    ہے کون سا گل، چمن کدھر ہے؟

    دی اس نے دعا، کہا بہ صد سوز

    فرخ ہو شہا! میں ابن فیروز

    گل ہوں، تو کوئی چمن بتاؤں!

    غربت زدہ کیا وطن بتاؤں!

    گھر بار سے کیا فقیر کو کام

    کیا لیجیے چھوڑے گاؤں کا نام

    پوچھا کہ سبب؟ کہا کہ قسمت

    پوچھا کہ طلب؟ کہا: قناعت

    باتوں پہ فدا ہوا شہنشاہ

    لایا بہ صد امتیاز ہمراہ

    چہرے سے امیرزادہ پایا

    گھر لا کے، وزیر اسے بنایا

    نذریں لیے بندگان درگاہ

    دستور سے آملے بہ صد جاہ

    دربار میں چاروں شاہ زادے

    دیکھے، تو کھلے وہ دل کے سادے

    چاہا، گل چیں کا امتحاں لے

    پوچھا کہ نگیں جو لے، کہاں لے؟

    بتلانے لگے وہ چاروں ناداں

    کوئی یمن اور کوئی بدخشاں

    جانا کہ جو گل یہ لائے ہوتے

    خاتم کے نگیں بتائے ہوتے

    تجویز میں تھا یہ صاحب فکر

    آیا تاج الملوک کا ذکر

    نقش اس کو ہوا کہ بس وہی ہے

    ان سادوں سے کندہ کب ہوئی ہے

    ظاہر نہ کیا بطون اپنا

    طالع سے لیا شگون اپنا

    منزل گہ رہ رواں بنا کے

    شام و سحر اس میں آپ آکے

    رہ رو کو دیا بہ لطف و اکرام

    آتے آرام، جاتے پیغام

    آباد ہونا تاج الملوک کا گلشن نگاریں بنوا کے اور شہرہ ہونا

    تعمیر مکاں کے ہیں جو آثار

    یوں خامہ ہے بہر بیت، معمار

    شہ زادہ کہ عازم وطن تھا

    گل پانے سے خوش چمن چمن تھا

    اندھے کو کیا جب اس نے بینا

    اور داغیوں نے وہ پھول چھینا

    سوچا کہ خوشی خدا کی، غم کھاؤ

    حمالہ دیونی کو بلواؤ

    نقل ارم ایک مکاں بنا کے

    رکھوں پریوں کو اپنی لاکے

    بال آگ پہ رکھتے، آندھی آئی

    وہ دیونی بال باندھی آئی

    تنہا اسے دیکھ کر کہا: ہیں!

    محمودہ کیا ہوئیں؟ کہا: ہیں

    دریا پہ ہوں ان کو چھوڑ آیا

    مسکن کے لیے تمھیں بلایا

    لیکن وہ مکاں، وہ حوض، وہ باغ

    جو باغ بکاولی کو دے داغ

    حمالہ نے دیووں کو کیا یاد

    آئے تو کہا: یہ بن، ہو آباد

    ویرانے کو گل زمیں بناؤ

    گلزار جو اہریں بناؤ

    صناع طلسم کار تھے وہ

    گلشن کے لیے بہار تھے وہ

    دیووں نے ادھر محل بنایا

    کشتی سے وہ دخت رز کو لایا

    حمالہ اس کی مادر پیر

    محمودہ سے ہوئی بغل گیر

    کچھ دیووں کو چھوڑ کر وہیں پر

    رخصت ہو کر چلی گئی گھر

    گلشن میں سمن بڑوں کو لایا

    نسریں بدنوں سے گھر بسایا

    دونوں کو محل میں لا کے رکھا

    پھل نخل مواصلت کا چکھا

    دیووں کو کہا کہ بہر تمکیں

    آباد ہو گلشن نگاریں

    دیو، آدمی بن کے بن میں آئے

    آتے جاتے کو گھیر لائے

    جو سن کے خبر، گیا ادھر کو

    جنت سے وہ پھر پھرا نہ گھر کو

    ازبس کہ قریب شہر تھا باغ

    خورشید افق نظر پڑا باغ

    مفلس، زردار، امیر، قلاش

    نوکر، تاجر، فقیر، خوش باش

    گھر چھوڑ کے چل بسے سب انساں

    پھر تن میں نہ آئے صورت جاں

    ملاقات ٹھہرنی زین الملوک اور تاج الملوک کی آپس میں

    گلشن جو بنا جواہر آگیں

    یوں صفحہ قلم سے ہے نگاریں

    ساعد نام ایک مہ لقا تھا

    دلبر کا غالام با وفا تھا

    صحرا سے جو سیر کر کے آیا

    لکڑی کے چکا کے بو جھ لایا

    دلوائے ہر ایک کو پے قوت

    الماس و عقیق و لعل و یاقوت

    تھی بس کہ وہ جا خلاصہ دہر

    کچھ ٹھہرے، کچھ آئے جانب شہر

    کف میں جو وہ لعل بے بہا تھے

    من پاتے ہی، لوگ اژدہا تھے

    شحنے نے سنا، پکڑ بلایا

    لے کر اظہار، ساتھ آیا

    دیکھا تو وہ جلوہ گاہ امید

    اک دائرہ تھا بہ رنگ خورشید

    دروازے پہ دیووں کا تھا پہرا

    بھجوا کے خبر، وہ شحنہ ٹھہرا

    جب واں سے طلب ہوا، تو درباں

    لائے اسے پیشگاہ سلطاں

    آداب کیا، ادب سے ٹھہرا

    ہیبت زدہ دور سب سے ٹھہرا

    ان لوگوں کو لے گیا تھا ہمراہ

    معروض کیا کہ یا شہنشاہ!

    کم مایہ یہ لوگ ہیں بہ ظاہر

    چوری کے تو یہ نہیں جواہر

    ساعد نے کہا کہ ہے یہ حاسد

    نیت ہوئی ہوگی اس کی فاسد

    حضرت! یہ وہی تو تبردار

    جا، ان سے نہ بولیو، خبردار!

    پھر کر انھی پاؤں شحنہ بے آس

    آیا زین الملوک کے پاس

    کی عرض کہ باغ اک بنا ہے

    یہ شہر اجڑا ہے، وہ بسا ہے

    جو کوئی ہے اس جگہ پہ جاتا

    ڈھیروں ہے جواہرات پاتا

    حضرت نے کہا کہ بک نہ خیرہ

    قاروں کا وہیں ہے کیا ذخیرہ!

    فرخ کہ وزیر باخرد تھا

    سلطاں مشیر نیک و بد تھا

    بولا کہ شہا! یہ بات کیا ہے

    نیرنگ و فسوں کا گھر بڑا ہے

    ہر چند کہ طرفہ حال ہے یہ

    کچھ دور نہیں، مثال ہے یہ

    حکایت ایک عورت کے مرد بن جانے کی دیو کے جادو سے

    اک ملک میں ایک صاحب فوج

    رکھتا تھا محل میں بارور زوج

    تھا داغ پسر مقدر اس کو

    جننی تھی ہمیشہ دختر اس کو

    از بس کہ وہ شاہ تھا بد اختر

    کرتا تھا حسد سے قتل دختر

    اک بار محل میں پھر حمل تھا

    وہ شاہ کہ ظلم میں مثل تھا

    کھا بیٹھا قسم کہ اب کی باری

    بیٹا جو نہ دے جناب باری

    اقبال کا کچھ نہ جانے اوج

    کر ڈالیے ذبح دختر و زوج

    کنیا تھی غرض کہ راس اس کی

    پوری نہ ہوئی وہ آس اس کی

    سلطاں کا جو عہد بے خلل تھا

    گھر والوں کو خوف کا محل تھا

    ملحوظ بہ دل تھا پردہ راز

    سیارہ شناسوں سے کیا ساز

    ہر چند ستارہ مال کا تھا ماند

    تھی چاندنی، شہرہ کر دیا چان

    بیٹے کا وہ زائچہ بنا کے

    گویا ہوئے دست بستہ آ کے

    حضرت! یہ پسر ہے نیک اختر

    بدیمن مگر ہے ایک اختر

    جب تک نہ چلے یہ اپنے پاؤں

    حضرت نہ پسر کے سامنے ہوں

    حلیہ کر کے چھپا کے یک چند

    بے تاب ہوا جب آرزومند

    وہ گندم جو نما تھی بالی

    مردانہ لباس سے نکالی

    خوش ہو کے پدر نے بہر شادی

    ٹھہرائی کہیں کی شاہ زادی

    بن ٹھن کے عروس شک داماد

    شادی کو چلی بہ جان ناشاد

    اک شب کسی دشت میں تھے ڈیرے

    اور روز نکاح تھا سویرے

    خیمے سے وہ بے قرار نکلی

    اس چھالے سے مثل خار نکلی

    دیکھا تو اندھیری رات سنسان

    اک عالم ہو ہے اور بیابان

    ایک دیو وہاں پہ گشت میں تھا

    جویاے شکار دشت میں تھا

    دیکھا تو کہا: خضر ملے، آؤ

    منہ کھولو، عدم کی راہ بتلاؤ

    بولا وہ کہ سن تو آدمی زاد!

    کیوں تنگ ہے جی سے، کیا ہے بیداد؟

    اے مرد خدا! خدا کی سوگند

    کہہ، جس لیے تو ہے آرزو مند

    بولی وہ کہ یہ خیال، ہے خام

    خنجر کا ہو کیا نیام سے کام

    کہہ کر کھلے بندوں جی کی تنگی

    بے ننگ، ہوئی وہ شوخ، ننگی

    آنکھیں جھپکا کے دیو بولا

    تو کیا کھلی، پردہ تو نے کھولا

    خاطر تری، لے طلسم دکھلاؤں

    تو مجھ سی بنے، میں تجھ سا بن جاؤں

    موند آنکھ کہا، تو موند لی آنکھ

    کھول آنکھ کہا، تو کھول دی آنکھ

    پائے مردانگی کے پر تو

    دامن میں سے دی چراغ نے لو

    تھا لے میں یہاں اگا صنوبر

    واں شیشہ، رہا ترش کے، ساغر

    اب یاں سے ہے قصہ مختصر طول

    فرخ کہ وہ تھا وزیر معقول

    بولا کہ شہا! جو یہ ہوا ہے

    اس بات کا پھر وجود کیا ہے

    شہ نے کہا: سن وزیر دانا

    بے دیکھے، سنے کو کس نے مانا

    یاد آئی مجھے بھی اک روایت

    یہ کہہ کے، بیان کی حکایت

    حکایت نصیحت گری مرغ اسیر و نافہمی صیاد کی

    اک مرغ ہوا اسیر صیاد

    دانا تھا وہ طاہر چمن زاد

    بولا جب اس نے باندھے بازو

    کھلتا نہیں کس طمع پہ ہے تو

    بیجا، تو ٹکے کا جانور ہوں

    گر ذبح کیا، تو مشت پر ہوں

    پالا، تو مفارقت ہے انجام

    دانا ہو، تو مجھ سے لے مرے دام

    بازو میں نہ تو مرے گرہ باندھ

    سمجھاؤں جو پند، اسے گرہ باندھ

    سن، کوئی ہزار کچھ سنائے

    کیجے وہی جو سمجھ میں آئے

    قابو ہو، تو کیجئے نہ غفلت

    عاجز ہو، تو ہاریے نہ ہمت

    آتا ہو، تو ہاتھ سے نہ دیجے

    جاتا ہو، تو اس کا غم نہ کیجے

    طائر کے یہ سن کلام، صیاد

    بن داموں ہوا غلام صیاد

    بازو کے جو بند کھول ڈالے

    طائر نے تڑپ کے پر نکالے

    اک شاخ پہ جا، چہک کے بولا

    کیوں، پر مرا کیا سمجھ کے کھولا؟

    ہمت نے مری، تجھے اڑایا

    غفلت نے تری، مجھے چھڑایا

    دولت نہ نصیب میں تھی تیرے

    تھا لعل نہاں شگم میں میرے

    دے کر صیاد نے دلاسا

    چاہا، پھر کچھ لگائے لاسا

    بولا وہ کہ دیکھ، کر گیا جعل

    طائر بھی کہیں نگلتے ہیں لعل!

    ارباب عرض کی بات سن کر

    کر لیجیے یک بہ یک نہ باور

    فرخ! یہ وہی مثل نہ ہوئے!

    دیکھ آ، جو تجھے دہل نہ ہوئے

    مشتاق تو تھا، چلا وہ دستور

    دکھلائی دیا وہ بقعہ نور

    نقشے میں وہ گلشن نگاریں

    گلزار ارم سے تھا خوش آئیں

    حیرت تھی کہ یہ طلسم کیا ہے!

    پردیس میں ہوں کہ گھر مرا ہے!

    اس سوچ میں تخت گہ تک آیا

    حیراں وہ وزیر، شہ تک آیا

    آداب اک کر کے حسب دستور

    ٹھہرا، تو وہ بادشاہ مستور

    سمجھا کہ حسین آدمی ہے

    کیا جانے کہ خود بکاولی ہے

    پوچھا کہ کدھر سے آئے، کیا نام؟

    بولا وہ کہ نام سے ہے کیا کام

    انسان ہوں، بندہ خدا ہوں

    بھیجا زین الملوک کا ہوں

    گستاخی معاف، آپ آئے

    بن گھیر لیا، مکاں بنائے

    بہکا کے بسائے مردم شہر

    حضرت کا بڑا ہے آپ پر قہر

    دعویٰ یہ ہے، یاں زمیں دابی

    آبادی میں آئی ہے خرابی

    خیر، اب بھی رفع شر جو چاہو

    سر آنکھوں سے چل کے جبہہ سا ہو

    بولا وہ کہ فتنہ گر نہیں ہم

    شرجن سے ہو، وہ بشر نہیں ہم

    درویشی میں دل کے بادشا ہیں

    مسند کے تکیے پر گدا ہیں

    دستور کہ عرض کر چکا تھا

    مثل دل بد گماں رکا تھا

    بولا: چلو صلح درمیاں ہو

    باہم مہ و مہر کا قراں ہو

    بولا وہ: فقیر کی بلا جائے

    مشتاق جو ہو، وہ شوق سے آئے

    بولا وہ کہ خیر، تابہ فردا

    اٹھ جائے گا درمیاں سے پردا

    یہ کہہ کے پھرا وزیر، آیا

    پہنچا تو وہ شہر خالی پایا

    شہ زادہ و شہ محل میں تھے واں

    بر ہم زدہ بزم کے چراغاں

    شہ نے جو وزیر آتے دیکھا

    فرخ، فرخ پکار اٹھا

    سلطاں کے نثار ہو کے دستور

    بولا کہ بلاے شاہ ہو دور!

    دیکھ آیا میں وہ مکان یاقوت

    ہے معدن لعل و کان یاقوت

    تختہ ہے زمردیں کہ مینو!

    گلشن ہے جواہریں کہ جادو!

    نقشہ کہوں کیا، نگار خانہ!

    جادو کا تمام کار خانہ!

    دیووں کی بنائی ہے وہ بنیاد

    رہنے والے ہیں آدمی زاد

    واں صاحب تاج و تخت جو ہے

    درویش ہے، شاہ نام کو ہے

    دیو اس کے عمل میں آگئے ہیں

    جادو کے محل بنا گئے ہیں

    کل آپ بھی چل کے کیجئے سیر

    وعدہ کر آیا ہوں، کہا: خیر

    بھید کھلنا چھپے ہوؤں کا ایک ایک پر

    اب خامے سے وا شگاف یوں ہے

    دل ملنے کی راہ صاف یوں ہے

    فرخ جو گیا، تو شاہ زادہ

    سوچا کہ ہوں ٹھاٹھ کل زیادہ

    رکھا آتش پہ دوسرا بال

    حاضر ہوئی دیونی قوی بال

    دعوت کی اسے خبر سنائی

    دیووں کے رخ اس نے آنکھ اٹھائی

    ہم چشموں نے چتون اس کی تاڑی

    پلکوں سے زمین بن کی جھاڑی

    غولوں سے بھرا جو تھا بیاباں

    پھولوں سے بنا دیا خیاباں

    صناعی انھوں نے رات بھر کی

    مشتاق نے واں وہ شب سحر کی

    بجتے ہی گجر وہ شاہ ذی جاہ

    چاروں شہ زادے لے کے ہمراہ

    جو جو امرا تھے، سب بلا کے

    فرخ کو خواصی میں بٹھا کے

    مشرق سے رواں ہوا دلاور

    جس طرح افق سے شاہ خاور

    بجلی سے جو زرق برق آئے

    فرش، ابر کی طرح بچھتے پائے

    دیکھا تو تمام دشت گلزار

    دائیں بائیں دورستہ بازار

    شہ کہتے تھے: دشت پر خسک تھا

    فرخ کہتا تھا: کل تلک تھا

    غافل تھے کہ سبز باغ ہے یہ

    اپنے ہی جگر کا داغ ہے یہ

    تجویز رہے تھے سب کے سب دنگ

    جادو، افسوں، طلسم، نیرنگ

    کیا لشکر اور کیا شہنشاہ

    سناٹے میں تھے کہ اللہ اللہ!

    دیکھے جو جواہرات کے ڈھیر

    سب من کی ہوس سے ہو گئے سیر

    شہ زادے نے آمد ان کی پائی

    کی تادر خانہ پیشوائی

    دونوں میں ہوئیں جو چار آنکھیں

    دولت کی کھلی ہزار آنکھیں

    ایوان جواہریں میں آئے

    الماس کی شبہ نشیں میں آئے

    وہ چتر کے زیر سایہ بیٹھے

    افسر سب پایہ پایہ بیٹھے

    جو جو کہ تو اضعات ہیں عام

    لے آئے خواص نازک اندام

    چکنی ڈلی، عطر، الائچی، پان

    نقل و مے و جام و خوان انوان

    رغبت سے انہیں کھلا پلا کے

    بولا شہ زادہ مسکرا کے

    اس تاج شہی میں کے نگیں ہیں؟

    کے نام و نشان دل نشیں ہیں؟

    سلطاں نے کہا بہ صد لطافت

    یہ چار ہیں عنصر خلافت

    ایک اور ہوا تھا قابل خشم

    وہ نور بصر، تھا دشمن چشم

    جب لائے یہ گل بکاولی کا

    نکلا تب خار روشنی کا

    پوچھا اس نے: وہ اب کدھر ہے؟

    سلطاں نے کہا کہ کیا خبر ہے!

    ایک ان میں سے چشم آشنا تھا

    کو کہ اسی شاہ زادے کا تھا

    بولا کہ حضور ادھر تو دیکھیں

    دیکھا، تو کہا: مری نظر میں

    صورت وہی، رنگ رو وہی ہے

    لہجہ وہی، گفتگو وہی ہے

    یہ سنتے ہی، اس نے خندہ کر کے

    سر، پاؤں پہ رکھ دیا پدر کے

    سر، قدموں سے شاہ نے اٹھایا

    فرزند کو چھاتی سے لگایا

    لے لے کے بلائیں کاکلوں کی

    پیشانی چومی، پیٹھ ٹھونکی

    عرض اس نے کیا کہ دو پرستار

    پا بوسی شہ کی ہیں طلب گار

    حضرت نے کہا: بلائیے خیر

    اٹھ جائیں، جو بیٹھے ہوں یہاں غیر

    شہ زادے نے اک مکاں بتایا

    ایک ایک اٹھا، ادھر کو آیا

    سب اٹھ گئے، پر وہ چاروں باغی

    بیٹھے رہے فرش گل پہ داغی

    شہ زادہ اٹھا، محل میں آیا

    پردے تلک ان کو ساتھ لایا

    دلبر سے کہا: میں جب کہوں، آؤ

    تو کہیو، یہ چاروں داغی اٹھواؤ

    درپردہ سکھا کے، باہر آیا

    بے پردہ حضور شہ بلایا

    دلبر نے کہا: لجاؤں گی میں

    قربان گئی، نہ آؤں گی میں

    اٹھ جائیں یہ چاروں سست بنیاد

    داغے ہوئے ہیں غلام، آزاد

    چاروں کا، جو سنتے ہی، اڑا رنگ

    یک بار گی شاہ ہوگیا دنگ

    دکھلائی دیے جو بیٹے بے رخ

    دیکھا تاج الملوک کے رخ

    یاں دل پہ تھے داغ، واں سریں پر

    یاں نام پہ حرف، واں نگیں پر

    وہ جعل، وہ ہار، وہ غلامی

    وہ گھات، وہ جیتنا تمامی

    وہ دسترس اور وہ پائے مردی

    وہ بے کسی اور وہ دشت گردی

    وہ دیو کی بھوک اور وہ تقریر

    وہ حلوے کی چاٹ اور وہ تحریر

    وہ سعی، وہ دیونی کی صحبت

    محمودہ کی وہ آدمیت

    تجویز کے وہ سرنگ کی راہ

    اور موش دوانیاں وہ دل خواہ

    وہ سیر چمن، وہ پھول لینا

    وہ عزم وطن، وہ داغ دینا

    وہ کور کے حق میں خضر ہونا

    وہ غولوں سے مل کے پھول کھونا

    وہ بال کو آگ کا دکھانا

    وعدے پہ وہ دیونی کا آنا

    وہ نزہت گلشن نگاریں

    وہ دعوت بادشا، وہ تمکیں

    گزرا تھا جو کچھ، بیاں کیا سب

    پنہاں تھا جو کچھ، عیاں کیا سب

    انگشتری پری دکھا کر

    کھلوئی سریں کی مہر محضر

    پہلے تو بہت وہ منہ چڑھے ڈھیٹھ

    آخر داغی دکھا گئے پیٹھ

    اٹھوا کے انہیں، وہ دو خوشی آئیں

    پا بوسی شہ کو سر سے آئیں

    حضرت نے سمجھ کے حسن خدمت

    دونوں کو دیے خطاب و خلعت

    نذریں ان دونوں نے دکھائیں

    رخصت ہو کر محل میں آئیں

    مسند سے شہ اٹھ کے بے محابا

    بولا بیٹے سے: جان بابا!

    روشن کیا دیدہ ٔپدر کو

    مادر کے بھی چل کے آنسو پوچھو

    مشتاق کو روبہ راہ پایا

    ہمراہ اسے تابہ خانہ لایا

    ماں نے دیکھا جو وہ دلاور

    اشکوں کے گہر کیے نچھاور

    وہ طفل بھی گر پڑا قدم پر

    مانند سر شک چشم مادر

    ہر خویش ویگانہ سے ملا وہ

    پھر اپنی جگہ پہ آگیا وہ

    غائب ہو جانا فرخ یعنی بکاولی کا اور بلوانا تاج الملوک

    کو گلشن نگاریں سے اور متفق ہو کر گلزار ارم میں رہنا

    کھلنے پہ جو ہے طلسم تقدیر

    اب خامے نے یو کیا ہے تحریر

    فرخ، وہ بادشا کا دستور

    یعنی وہ بکاولی مستور

    مطلوب کا سن سمجھ کے سب حال

    چاہی کہ نکالے کچھ پر وبال

    سوچی کو دلا! شتاب کیا ہے

    پھر سمجھیں گے، اضطراب کیا ہے

    اس وضع کا پاس کر گئی وہ

    تغیر لباس کر گئی وہ

    فرخ کہنے تک آدمی تھی

    پھر وہ ہی بکاولی پری تھی

    غربت سے چلی، وطن میں آئی

    صحرا سے اڑی، چمن میں آئی

    پژ مردہ خواصوں پڑی جان

    صدقے ہوئی کوئی، کوئی قربان

    اس غنچے میں اک سمن پری تھی

    وہ ہم نفس بکاولی تھی

    بولی: کہو کیا کیا، کہا: خوب

    بے کچھ کیے پھر بھی آئی، کیا خوب!

    مانگا کاغذ، دوات، خامہ

    لکھا گل چیں کے نام نامہ

    اے یوسف چشم زخم یعقوب!

    وے رشک برادران منکوب!

    اے دل بر دلبرد غل باز!

    وے دیو سوار عرش پرواز!

    اے آب تہ زمین نیرنگ!

    وے نقب دوان باغ گل رنگ!

    اے پردہ کشاے بے حجابی!

    وے دزد حناے دست یابی!

    اے رہ رو رو بہ رہ نہادہ!

    وے صر صر گل بہ باد دادہ!

    اے بے سر و برگ گلشن آرا!

    وے لعل نماے سنگ خارا!

    اے بے خبر طلسم صورت!

    وے بے بصر رخ ضرورت!

    اے باعث عزم میہمانی!

    وے صاحب بزم میزبانی!

    اے آئنہ دار خود نمائی!

    وے سرمہ چشم آشنائی!

    اے پردہ کشاے روے پنہاں!

    وے داغ نماے پشت اخواں!

    تو باغ ارم سے لے گیا گل

    تو مجھ سی پری کو دے گیا جل

    بے رخ ترے واسطے ہوئی میں

    فرخ ترے واسطے ہوئی میں

    تجھ کو ترے باپ سے ملایا

    مجھ کو یہ ملا کہ تجھ کو پایا

    جو جو اسرار تھے نہانی

    سب تجھ سے سنے تری زبانی

    کیا لطف جو غیر پردہ کھولے

    جادو ہو جو سر پہ چڑھ کے بولے

    چاہا تھا، کروں سرے سے پامال

    کر شکر، سمجھ کہ تھا خوش اقبال

    کیا کہیے کہ صورت اور کچھ تھی

    وقت اور، ضرورت اور کچھ تھی

    اب تک ہیں وہ خارجی کے جی میں

    جلد آ کہ ہے مصلحت اسی میں

    آئے گا، تو در گذر کروں گی

    ورنہ میں بہت ساشر کروں گی

    داغوں پہ دیے ہیں داغ تو نے

    دکھلائے ہیں سبز باغ تو نے

    کانٹوں میں اگر نہ ہو الجھنا

    تھوڑا لکھا بہت سمجھنا

    پھر خط کی نہ ہو امیدواری

    القط ہے قلم کی دوست واری

    یہ لکھ کے، کہا سمن پری کو

    چالاک ہے تو ہی قاصدی کو

    یہ خط، یہ انگوٹھی لے، ابھی جا

    پورب کی سمت کو چلی جا

    رستے میں ہے گلشن نگاریں

    رہتا ہے وہیں مرا وہ گل چیں

    خاتم کے نشاں سے نامہ دیجو

    ٹھہری رہیو، جواب لیجو

    خط، خاتم لے کے وہ ہوائی

    پتا ہوئی اور پتے پہ آئی

    وہ باغ کہ تھا جواہر آگیں

    ثابت ہوا گلشن نگاریں

    وہ آدم حوروش، پری رو

    یعنی تاج الملوک خوش خو

    گل گشت میں تھا کسی روش پر

    محمودہ دائیں، بائیں دلبر

    قاصد نے جو رخ پری دکھایا

    دھیان اس کو بکاولی کا آیا

    پہچانتے ہی نگین خاتم

    بے شبہ ہوا یقیں کا عالم

    پر تو پہ وہ یوں چلا تڑپ کے

    انگارے پہ جیسے کبک لپکے

    دھوکا تھا فقط بکاولی کا

    قاصد نے دیا وہ خط پری کا

    گو سرمہ خموشی نے کھلایا

    تحریر کو آنکھوں سے لگایا

    قاصد سے کلام لطف بولا

    خط صورت چشم شوق کھولا

    وہ نامہ کہ عنبریں رقم تھا

    قسمت کا نوشتہ یک قلم تھا

    تحریر تھی سر گذشت ساری

    کچھ یاس تھی، کچھ امیدواری

    منگوا کے وہیں دوات و خامہ

    تحریر کیا جواب نامہ

    اے شاہ ارم کی دخت گل فام!

    فرخ لقب و بکاولی نام

    اس نام کے، اس لقب کے صدقے

    اس نامے کے، اس طلب کے صدقے

    میں نے جو غرض سے جی چرایا

    تو نے کیوں آ کے منہ چھپایا؟

    میری جو بدی ہوئی تھی کچھ یوں

    تو نیک ہے، بے ملے گئی کیوں؟

    تو جائے، تو کیوں نہ آئے افسوس

    افسوس، افسوس، ہاے افسوس!

    تقدیر پھری، پھری نہیں تو،

    امید گئی، گئی نہیں تو

    اے کاش! میں کچھ بھی سانس پاتا

    جی کھول کے داغ دل دکھاتا

    معلوم تو ہے کہ شوق کیا تھا

    جو کھینچ کے یاں سے لے گیا تھا

    اب مجھ میں وہ دم اجی کہاں ہے

    وہ دل، وہ جگر، وہ جی کہاں ہے

    مر جاؤں اگر طلب میں تیری

    میں کیا، کہ خبر نہ پہنچے میری

    قابل واں آنے کے کہاں ہوں

    یاں بھی جو رہا، تو نیم جاں ہوں

    تجھ سے میری خاطر اب کہاں جمع

    تو نشتر شعلہ، میں رگ شمع

    تو برق دماں، میں خرمن خار

    تو سیل رواں، میں خستہ دیوار

    تو جوشش یم، میں مور بے پر

    میں نقش قدم، تو باد صرصر

    دھڑکا ہے یہی، تو جان دوں گا

    مرجاؤں گا، اب نہ میں جیوں گا

    ہو تجھ سی پری جو خصم جانی

    انساں کی ہے مرگ، زندگانی

    منظور جو ہو حیات میری

    تو مان لے ایک بات میری

    حمالہ کو بھیج، آ کے لے جائے

    شاید مجھے زندہ پا کے پہنچائے

    بھیجا نہ اسے، تو جان لینا

    آسان ہے یاں بھی جان دینا

    یہ لکھ کے، جو خط سے ہاتھ اٹھایا

    قاصد نے لیا جو اب، لایا

    مطلوب کا خط وہ پڑھ رہی تھی

    دیکھا تو وہ دیونی کھڑی تھی

    پوچھا کہ اری! تجھے خبر ہے

    گل چیں مرا کون سا بشر ہے؟

    وہ صدقے ہوئی، کہا: بلا لوں

    بے دیکھے کسی کا نام کیا لوں!

    یہ سن کے، وہ شعلہ، ہو بھبوکا

    بولی کہ تجھے لگاؤں لوکا

    تیرا ہی تو ہے فساد مردار!

    داماد کو گل دیا، مجھے خار

    گل نقب کی راہ لے گیا چور

    زندہ کروں اس موئے کو درگور

    حمالہ! جلی ہوں، کیا کہوں میں

    داماد کو لا، تو ٹھنڈی ہوں میں

    آگاہی جو دیونی نے پائی

    بگڑی ہوئی بات یوں بنائی

    محمودہ ہے کنیز زادی

    انساں سے ہوئی ہے اس کی شادی

    میرا تو نہیں قصور ہے کچھ

    شاید اس کا فتور ہے کچھ

    مجرم جو وہ ہے، تو لو میں لائی

    یہ کہہ کے اٹھی، چلی ہوائی

    آئی، تو یہ زار، نیم جاں تھا

    آپ اپنی قضا کا نوحہ خواں تھا

    حمالہ کو دیکھتے ہی، رو رو

    پوچھا کہ تو لینے آئی مجھ کو؟

    بولی وہ بنی، بگاڑ کیا ہے

    چل دیکھ تو چھیڑ چھاڑ کیا ہے

    کچھ بول کے زیر لب وہ دل زار

    ہیجان میں تپ کے جیسے بیمار

    لرزہ سا چڑھا جو دیونی پر

    مانند حواس اڑی وہ مضطر

    اس سمت سے پہنچی یہ عقیلہ

    واں آئی پری کی ماں جمیلہ

    شکوہ کرنے لگی پری سے

    یوں کہنے لگی بکاولی سے

    گلزار کی سیر کیا خوش آئی

    برسوں سے نہیں تو گھر بھی آئی

    بے طرح گلوں کی ہے تو شیدا

    گل چیں نہ ہوا ہو کوئی پیدا

    کھلتے ہیں کچھ انتظار کے طور

    رخ میری طرف، نظر کہیں اور

    تقریر جو بھولے پن کی پائی

    وہ سادہ دل اٹھ کے گھر کو آئی

    جب اٹھ گئی یہ، تو دیونی وہ

    حاضر ہوئی لے کے آدمی ہو

    آیا، تو وہ منتظر تھی خوں خوار

    اندیشے سے کانپ اٹھا گنہ گار

    واں غصے بھری غضب وہ چتون

    پلکوں سے یہاں نظر پہ چلمن

    واں سرمۂ چشم گرم تسخیر

    یاں قطرۂ اشک تر گلو گیر

    واں پھانسنے کو بلا وہ گیسو

    یاں تاب سخن نہیں سر مو

    بولی وہ پری بہ صد تامل

    کیوں جی! تمھیں لے گئے تھے وہ گل؟

    کیا کہتی ہوں میں، ادھر تو دیکھو

    میری طرف اک نظر تو دیکھو

    ہے یا نہیں یہ خطا تمھاری

    فرمائیے کیا سزا تمھاری؟

    قابو میں پری کے تھا سلیماں

    بولے بتلائے کیا پشیماں

    کی عرض: رضا ہے، جو خوشی ہو

    عاشق کی سزا جو پوچھتی ہو

    مشکیں زلفوں سے مشکیں کسواؤ

    کالے ناگوں سے مجھ کو ڈسواؤ

    تلوار سے قتل ہو جو منظور

    ابرو کے اشارے سے کرو چور

    زنداں میں جو زندہ بھیجنا ہو

    اپنے دل تنگ میں جگہ دو

    یہ سن کے، وہ شوخ مسکرا کے

    بولی اسے چھاتی سے لگا کے

    گل چیں تو فقط نہیں چمن کا

    محرم ہے سارے تن بدن کا

    رخ دیکھ چکی ہوں اب ترا میں

    منہ دوسرے کو دکھاؤں کیا میں

    یہ کہہ کے، لبوں سے قند گھولے

    مستی نے دلوں کے عقدے کھولے

    کاوش پہ ہوا گہرسے الماس

    غنچے نے بجھائی اوس سے پیاس

    واں غنچہ، یا سمیں تھا گلنار

    یاں دامن سرو ارغواں زار

    واں صبح صفا تھی گل بہ داماں

    پھولی رخ مہر پر شفق یاں

    کیا آگے لکھوں کہ اب سردست

    ہوتا ہے دوات میں قلم مست

    افشاے راز ہو کر پھنسا تاج الملوک کا طلسم میں اور مقید رہنا بکاولی کا

    خونیں رقمی سے کلک شنجرف

    ہے ستر کشاے معنی و حرف

    ازبس کہ یہ عشق فتنہ پرداز

    ہے شمع فروز پردۂ راز

    ہمدم جو بکاولی نے پایا

    غماز، یہ غم خوشی میں لایا

    بھڑکائی جمیلہ مادر اس کی

    گزرانی خبر برابر اس کی

    اک شب، کہ تھی خال روے شامت

    یا مردم دیدۂ قیامت

    آکر جو ہے دیکھتی جمیلہ

    روشن تھے چراغ اور فتیلہ

    دو شعلۂ آتشیں لپک کے

    بجلی سی گری چمک دمک کے

    دونوں کے رہی نہ جان تن میں

    کاٹو تو لہو نہ تھا بدن میں

    شہ زادے پر اس نے مار چنگال

    دریاے طلسم میں دیا ڈال

    بیٹی کی طرف کیا نظارہ

    جھلا کے کہا کہ خام پارہ!

    حرمت میں لگایا داغ تو نے

    لٹوائی بہار باغ تو نے

    تھمتا نہیں غصہ تھامنے سے

    چل دور ہو میرے سامنے سے

    خجلت سے پری زمیں میں گڑکے

    سایہ سی رہی قدم پکڑ کے

    مادر نے ہزار پاسباں میں

    رکھا اسے قید کے مکاں میں

    پابہ زنجیر ہونا بکاولی کا سوداے فراق تاج الملوک میں

    سوداے الم ہے اب جو تحریر

    حرفوں سے قلم ہے پابہ زنجیر

    سنسان وہ دم بہ خود تھی رہتی

    کچھ کہتی، تو ضبط سے تھی کہتی

    کرتی تھی جو بھوک پیاس بس میں

    انسو پیتی تھی، کھا کے قسمیں

    جامے سے جو زندگی کے تھی تنگ

    کپڑوں کے عوض بدلتی تھی رنگ

    یک چند جو گزری بے خور و خواب

    زائل ہوئی اس کی طاقت و تاب

    صورت میں خیال رہ گئی وہ

    ہیئت میں مثال رہ گئی وہ

    آنے لگے بیٹھے بیٹھے چکر

    فانوس خیال بن گیا گھر

    پریاں وہ جو اس کی باسباں تھیں

    دانا و عقیل و خوش بیاں تھیں

    سمجھانے لگیں کہ مرتی ہے کیوں

    ترک خور و خواب کرتی ہے کیوں

    تابت کچھ اثر ستارے کا ہے

    کس چاند کو کیا گہن لگا ہے!

    رحم اپنی جوانی پر ذرا کر

    منہ دیکھ تو آئنہ منگا کر

    صورت تری زار ہو گئی ہے

    گل ہو کے تو خار ہوئی ہے

    ہے ہے تری عقل کس نے کھوئی!

    نا جنس کو چاہتا ہے کوئی!

    سہتی نہیں آگ ماہی تر

    رہتا نہیں پانی میں سمندر

    مذکور نہیں ہے کچھ حسد کا

    ساتھی نہیں کوئی کار بد کا

    روشن ہے، جو کچھ کیا ہے اندھیر

    پھیر اپنی سمجھ سمجھ کا ہے پھیر

    محبوس کیا ہے تجھ کو ہر چند

    توبہ کا در نہیں کیا بند

    بھولے سے بھی کر نہ یاد آدم

    پھر گھر وہی، تو وہی، وہی ہم

    اے شمع! نہ سوچی گر بد و نیک

    رشتہ کاٹے گا تجھ سے ہر ایک

    سمجھانے سے تھا ہمیں سروکار

    اب مان نہ مان تو ہے مختار

    تو قید جفا میں ہے کہ ہم ہیں؟

    تو دام بلا میں ہے کہ ہم ہیں؟

    غم، راہ نہیں کہ ساتھ دیجے

    دکھ، بوجھ نہیں کہ بانٹ لیجے

    جھنجلائی بکاولی کہ بس بس

    اب ایک کہو گی تم، تو میں دس

    رنجور جو ہوں تو میں، تمھیں کیا

    مجبور جو ہوں تو میں، تمھیں کیا

    مانا مری حالت اب ردی ہے

    بہتر ہے وہی جو کچھ بدی ہے

    بلبل اسی رشک گل کی ہوں میں

    تم کیا ہو، ہزار میں کہوں میں

    سوچیں وہ کہ یہ نہیں سمجھتی

    ہے بلکہ بہ رنگ زلف الجھتی

    مجنوں ہو اگر، تو فصد لیجے

    سایہ ہو، تو دوڑ دھوپ کیجے

    کچھ روگ جو درپے خلش ہو

    درماں کے لیے دوا دوش ہو

    بیماری عشق لا دوا ہے

    اس باغ کی اور ہی ہوا ہے

    آخر یہ تو جی سے اپنے ہے تنگ

    ایسا نہ ہو لائے اور کچھ رنگ

    یاد آئیں جو ابروان خم دار

    ریتے نہ کہیں گلے پہ تلوار

    وہ وسبزۂ خط جو یاد آئے

    جھنجلا کے کہیں نہ زہر کھائے

    کر یاد کہں چہہ ذقن کو

    کودے نہ کنویں میں، باولی ہو

    دیوانے کی مطلق العنانی

    ہے باعث مرگ ناگہانی

    تدبیر کا حوصلہ نکالا

    زنجیر کا سلسلہ نکالا

    بیڑی تھی رخ جنوں کی کاکل

    پا بوسی گل کو آیا سنبل

    جب وحشت عشق ہو زیادہ

    زنجیر ہے پیش پا فتادہ

    شوریدہ بکاولی غضب تھی

    زنجیروں میں بھی بند کب تھی

    بڑھتی جب دل کی بے قراری

    پڑھتی یہ غزل بہ آہ و زاری

    غزل

    عالم کا ترے جہاں بیاں ہے

    بے تابی دل جہاں جہاں ہے

    زنجیر جنوں! کڑی نہ پڑیو

    دیوانے کا پاؤں درمیاں ہے

    ذرے کا بھی چمکے گا ستارہ

    قائم جو زمین و آسماں ہے

    جو داغ کہ مہر ہے فلک پر

    دل میں مرے اب تلک نہاں ہے

    کس سوچ میں ہو نسیمؔ ! بولو

    آنکھیں تو ملاؤ، دل کہاں ہے

    آنا تاج الملوک کا صحراے طلسم سے روح افزا پری کے ساتھ فردوس میں

    بہر گہر طلسم اخلاص

    ہے بحر سخن میں خامہ غواص

    وہ قطرہ بارش جدائی

    وہ غرقۂ بحر آشنائی

    وہ بادشہ حباب افسر

    یعنی تاج الملوک مضطر

    بے مہری چرخ سے جو ناگاہ

    گرداب کے ہالے کا ہوا ماہ

    جو ماہ سپہر بر تری تھا

    سو ماہی بحر ابتری تھا

    بادل سا وہ بحر آسماں جوش

    بجلی سی لہر سے تھا ہم آغوش

    دریا تھا نہ بحر تھا نہ جیحوں

    طوفان طلسم، جوش افسوں

    گرتے تو وہ پانی سر سے گزرا

    ابھرا، تو نہ کچھ نظر سے گزرا

    موجوں کے عوض، تھی چین داماں

    گرداب کے بدلے، تھا گریباں

    آگے جو بڑھا، جزیرہ دیکھا

    اشجاروں کا ذخیرہ دیکھا

    جس پھل کو چھوا، جو پھر کیا غور

    ہاتھ آیا نہ کچھ حباب کے طور

    جانا کہ طلسم کا ہے جنگل

    ہے یاں درخت کا یہی پھل

    اور آگے بڑھا وہ بحر اوہام

    ڈوبا خورشید، ہو گئی شام

    ڈر جانوروں کا جی میں پیٹھا

    اک نخل کہن پہ چڑھ کے بیٹھا

    ناگاہ سنی صداے پر خوف

    آیا ایک اژدہا پے طوف

    صورت میں پہاڑ کی نشانی

    سیرت میں بلاے ناگہانی

    منہ کھول کے سانپ اک نکلا

    اس کالے نے من زمیں پہ ڈالا

    لہرا لہرا کے اوس چاٹی

    بن میں کالوں نے رات کاٹی

    جب صبح ہوئی، تو منہ میں ڈالا

    کالے نے من، اژدہے نے کالا

    وہ جا کے افق میں مہر چمکا

    من، افعی شب کے منہ سے نکالا

    سوچا وہ کہ لیجے من کسی طور

    دشمن کا تھا سامنا، کیا غور

    کچھ گائیں کلیلیں کر رہی تھیں

    بن میں ہری دوب چر رہی تھیں

    دودھ ان دوہا، پیا، کہا لو

    گوبر کے انھی کے چھوت پھینکو

    نکلا جو پھر آ کے شب کو اژدر

    گلخن سے دھواں، دھویں سے اخگر

    گوبر پھینکا تو دب گیا من

    بادل میں چھپا وہ ماہ روشن

    بے روشنی اندھے ہو گئے وہ

    من ڈھونڈھتے، آپ کھو گئے وہ

    من لے کے جو اس نے مہرہ مارا

    شب کاٹ کے صبح دم سدھارا

    دو مرغ تھے بیٹھے اک شجر پر

    مادہ لگی پوچھنے کہ اونر!

    میں تجربہ کر چکی جہاں کا

    کھلتا نہیں کچھ طلسم یاں کا

    مادہ سے یہ سن کے، بول اٹھا نر

    ہے طرفہ طلسم اس جگہ پر

    وہ پیڑ، جو حوض پر لگا ہے

    طوبیٰ سے خواص میں سوا ہے

    اک سانپ ہے واں پہ چوٹ کرتا

    مارے سے نہیں کسی کے مرتا

    لیکن جو یہ بندۂ خدا جائے

    تا حوض قدم قدم چلا جائے

    لپگے گا خود، اس کو دیکھ کر سانپ

    منہ چادر آب میں یہ لے ڈھانپ

    ابھرے گا لگا کے جب یہ غوطا

    بن جائے گا آدمی سے طوطا

    اندیشہ نہ اپنے دل میں لائے

    اڑ کر یہ اسی شجر پہ جائے

    سب خشک ہے، ایک ہے ہری ڈال

    دو رنگ کے پھل ہیں، سبز اور لال

    پہلے تو یہ لال پھل کو کھائے

    انسان کا رنگ روپ پائے

    پھر توڑ لے اس کے سبز پھل کو

    پھل کچھ اسے دے رہے گا کل کو

    جس شخص کے پاس وہ ثمر ہو

    ہتیار نہ اس پہ کار گر ہو

    لکڑی میں اثر یہ ہے کہ دشمن

    بن جاتا ہے موم اگر ہو آہن

    دو ہا تھوں میں جو لے کاندھے پر سے

    اُڑ تا پھرے، جیسے مرغ، پرسے

    ٹوپی جو بنائے، چھیل کر چھال

    دکھلائی نہ دے نظر کی تمثال

    پتے کی صفت بیان کیا ہو

    دم بھر میں بھرے جراحتوں کو

    منہ میں رہے گوند اس کا جب تک

    لگتی نہیں بھوک پیاس تب تک

    تھا ملہم غیب مرغ گویا

    سنتے ہی، ادھر چلا وہ جویا

    کالے نے جہاں سے کی سیاہی

    وہ حوض میں تھا مثال ماہی

    طوطا بن کر، شجر پہ آکر

    پھل کھا کے، بشر کا روپ پاکر

    پتے، پھل، گوند، چھال، لکڑی

    اس پیڑ سے لے کے راہ پکڑی

    ہاتھ آ جو گئی عصا کی تاثیر

    پراں ہوا صورت عصا فیر

    اڑتا ہوا، واں سے دور جا کر

    ٹھہرا دم لینے اک جگہ پر

    من، ران کو چیر کر چھپایا

    پتے سے وہ زخم سب بھر آیا

    اک حوض پر آب و تاب دیکھا

    سر چشمۂ آفتاب دیکھا

    غوطہ جو لگا کے سر اٹھایا

    وہ آب، وہ حوض، کچھ نہ پایا

    دکھلائی برے دنوں نے شامت

    مردی کی رہی نہ کچھ علامت

    حوض اس کی ہوئی یہ دیکھتے ہی

    فوارہ تو گم، خزانہ باقی

    سختی جو دکھاتا تھا مقدر

    چھاتی پہ دھرا کچوں سے پتھر

    نا مردی سے اپنی نعرہ زن ہو

    بے چاری چلی کسی طرف کو

    آگےسے جو ان ایک خوش قد

    آتا تھا، دنوں کی جیسے آمد

    باہم زن و مرد نے کیا میل

    دریا سے ملا وہ قطرہ زن سیل

    بارے جو پڑی گھر اس کے بے قید

    امید سے رہ گئی وہ نومید

    جب جن کے، نہانے کا دن آیا

    غوطہ کسی حوض میں لگایا

    ابھری، تو نہ حوض تھا نہ وہ روپ

    پانی کے عوض، تھی دشت کی دھوپ

    مردی نے جو پھر وجود پایا

    پستانوں کو بے نمود پایا

    ترکش پہ نگاہ کی، تو تھا تیر

    قبضے میں پھر آئی کھوئی شمشیر

    گو شمع بنا چراغ دامن

    روشن نہ ہوا وہ رنگ روغن

    تھا مردم دیدۂ طلسمات

    خال رخ و رنگ رو مساوات

    اک دیونی مردہ دل سی مبہوت

    پستاں سے قد اس کا نخل تابوت

    زنبور سیاہ خال اس کے

    برگد کی جٹائیں بال اس کے

    گٹھا لیے سر پہ لکڑیوں کا

    چلتی تھی، سموم کا سا جھونکا

    شہ زادہ کہ تھا کریہ منظر

    وہ رو سیہ اس کو سمجھی شوہر

    گٹھا وہ دیا کہ بیچ لا، جا

    کیجو نہیں دیر، جلد آ جا

    حیرت زدہ شاہ زادہ لاچار

    راہی ہوا سر پہ رکھ کے انبار

    جب بڑھ کے ہوا نظر سے اوجھل

    ہلکا ہوا، پھینک پھانک بوجھل

    واں سے جو بڑھا، تو ایک چشما

    پر آب تھا چشم منتظر سا

    غوطہ جو لگا کے سر ابھارا

    پایا وہی رنگ روپ سارا

    کھویا ہوا مال ہاتھ آیا

    بولا وہ کہ شکر ہے خدایا!

    خورشید مرا گہن سے چھوٹا

    زنگ آئنۂ بدن سے چھوٹا

    یارب! یہی اب میں چاہتا ہوں

    یہ چشمہ پھر آنکھ سے نہ دیکھوں

    ناداں ہو جو آبرو کو کھوئے

    اس پانی سے منہ ہاتھ دھوئے

    یہ کہہ کر، کاندھے رکھ کے لاٹھی

    گھوڑوں پہ ہوا کے باندھی کاٹھی

    کھانے کو شجر کا گوند تھا پاس

    کیا دخل کہ بھوک لگتی یا پیاس

    دیکھا ناگاہ کوہ البرز

    اک دیو سیاہ تھا لیے گرز

    ٹوپی وہ جو سر پہ چھال کی تھی

    عریانی میں پردہ حال کی تھی

    اس دیو کے آگے سے بڑھاوہ

    سایہ سا پہاڑ پر چڑھا وہ

    گریاں لب حوض ایک پری تھی

    فوارے کی طرح رو رہی تھی

    پرجوش و خروش اسے جو پایا

    روپوش نے تاج سر اٹھایا

    دیکھا جو پری نے آدمی زاد

    آہستہ کہا کہ خانہ برباد!

    رستہ ترا کھو گیا کہاں سے!

    کھا جائے گا دیو، بھاگ یاں سے

    بولا وہ بشر کہ دیو کیسا؟

    ہمکو تو ملا نہ کوئی ایسا

    بولی وہ پری کہ جا، کہا مان

    سر پر ہیں تیرے قضا کے سامان

    بولا وہ کہ بے قراری کیا ہے

    تم اپنی کہو، ہماری کیا ہے

    کیوں روتی ہو، کس کی یاد میں ہو؟

    کیا رنج ہے، کس فساد میں ہو؟

    بولی وہ حسیں کہ میں پری ہوں

    اس دیو کے بس میں آ گئی ہوں

    فردوس کا بادشاہ مظفر

    روح افزا جس کی ہوں میں دختر

    سردار کڑوڑ دیووں کا ہے

    سلطان ارم مرا چچا ہے

    اک دن میں چلی چچا کے گھر کو

    ماندی تھی بکاولی، خبر کو

    رستے سے یہ دیو پھانس لایا

    اب تک تو خدا نے ہے بچایا

    نام اس سے بکاولی کا سن کر

    رونے جو لگا وہ سر کو دھن کر

    پوچھا اس نے کہ آدمی زاد!

    تو کیوں رویا؟ کہا کہ فریاد!

    واں خرمن عیش پر پڑی برق

    یاں بحر فسوں میں میں ہوا غرق

    واں پھانس چبھی ہے اس کو غم کی

    یاں سانس نہیں ہے ایک دم کی

    بولی وہ کہ چھوٹتے اگر ہم

    رکھتے ترے زخم دل پہ مرہم

    بولا وہ کہ چل، کہا کہ ناداں!

    وہ دیو کہاں، کہاں تو انساں

    دیووں سے بھی لڑ سکا ہے کوئی!

    سایے کو پکڑ سکا ہے کوئی!

    بولا وہ کہ جی بجھا نہ جانی!

    دیو آگ، تو آدمی ہے پانی

    ہر چند کہ انس و جاں میں ہے لاگ

    دب جاتی ہے مشت خاک سے آگ

    بولی وہ کہ سن تو آدمی زاد!

    وہ دیو ہے، تیری کیا ہے بنیاد

    تجھ پاس تو اک عصا ہے جانی!

    لاٹھی سے جدا نہ ہوگا پانی

    بولا وہ کہ یہ جو لٹھ مرا ہے

    موسی کا عصا ہے، اژدہا ہے

    یہ کہہ کے، جتائے جو ہر اپنے

    سامان دکھائے یکسر اپنے

    ٹوپی جو اتار لی تھی سر سے

    پھر رکھ کے، نہاں ہوا نظر سے

    لٹھ کاندھے پہ رکھ، ہوا پہ جا کر

    ظاہر ہوا ٹوپی کو اٹھا کر

    یہ شعبدہ دیکھ کر، پری نے

    اڑ چلنے کے پائے کچھ قرینے

    تسکیں جو ہوئی پری کے جی کو

    وہ آدمی لے اڑا پری کو

    وہ دیو، پری کو اڑتے پا کر

    اچکا، تو ملا ہوا پہ جا کر

    شہزادے نے اپنے سر کی ٹوپی

    جلدی سے پری کے سر پہ رکھ دی

    بدلی میں چھپی وہ ماہ روشن

    بجلی ساعیاں ہوا یہ پر فن

    وہ دیو کہ تھا پری پہ لپکا

    حیرت زدہ، آدمی پہ لپکا

    شہ زادہ کہ لٹھ سے برق دم تھا

    بادل سا ہوا کا ہم قدم تھا

    دیکھا جو نہ دیو نے گزارا

    پتھر اک اٹھا کے پھینک مارا

    وہ سنگ گران حربۂ غول

    تاثیر سے پھل کی، بن گیا پھول

    لٹھ اس کا پڑا، تو وہ ہوا چور

    جس طرح عصا سے جام بلور

    غل کر کے زمین پر گرا دیو

    موجود ہوئے ہزار ہا دیو

    بادل کی طرح جو امڈے دشمن

    لاٹھی سے ہوا وہ برق خرمن

    موسیٰ کا عصا تھا لٹھ جواں کا

    ایکی لاٹھی سے سب کو ہانکا

    سرمہ کیا کوہ پیکروں کا

    جی چھوٹ گیا دلاوروں کا

    ٹوپی کو اتار کر پری نے

    چومے قدم بشر پری نے

    شہ زادے نے تاج سر پہ رکھا

    لٹھ کاندھے پہ، دل سفر پہ رکھا

    فردوس میں جا کے صورت حور

    ماں باپ سے آ ملی وہ مہجور

    دیووں کی وہ سر کشی سنائی

    انسان کی وہ مرد می جتائی

    سن سن کے اڑے حواس ان کے

    لائے نہ یقین قیاس ان کے

    پوچھا کہ وہ ہے؟ کہاں کہ ہاں، ہے

    پوچھا کہ کہاں؟ کہا یہاں ہے

    یہ سنتے ہی، اس نے تاج اٹھایا

    حیرانوں کو شعبدہ دکھایا

    بال اس کے وبال سے بڑے تھے

    ناخن بھی ہلال سے بڑے تھے

    تن خاکی تھا، جان آتشیں تھی

    عریانی، قباے پوستیں تھی

    صورت سے فقیر تھا بروگی

    کی آو بھگت، سمجھ کے جوگی

    حسن آرا اس پری کی مادر

    باپ اس کا بادشاہ مظفر

    قدموں پہ گرے، کہا ادب سے

    حرمت رہی آپ کے سبب سے

    بولا وہ: خدا خدا کرو، واہ!

    ہے جملہ جہاں کا مالک اللہ

    قادر وہی، کبریا وہی ہے

    آخر وہی، ابتدا وہی ہے

    بولے وہ کہ حق ہے، جو ہے فرماں

    تم وقت کے اپنے ہو سلیماں

    کھولو کمر، آؤ لطف فرماؤ

    شربت پیو، میوہ ہائے تر کھاؤ

    بولا وہ کہ اشتہا کسے ہے!

    کھانے کا مزہ رہا کسے ہے!

    سیاح کو کیا قیام سے کار

    شبنم، نہیں جاگزین گلزار

    درویش رواں رہے تو بہتر

    آب دریا بہے تو بہتر

    روح افزا بول اٹھی: اجی واہ!

    ہم جانے نہ دیں گے تم کو واللہ!

    آرام کرو، کرم کرو، آؤ

    ہم رام ہوئے، نہ رم کرو، آؤ

    مجمعے سے الگ مکاں میں لائی

    آرام کی جا قرار پائی

    اصحاب نیاز کھانے لائے

    ارباب نشاط گانے آئے

    تھا اپنے ہی سوچ میں وہ سنسان

    دھن راگ کی تھی نہ رنگ کا دھیان

    بے وقت وہ راگ خوش نہ آیا

    بے فصل وہ پھاگ خوش نہ آیا

    آنا بکاولی کا روح افزا کی خبر کو جمیلہ کے ساتھ

    اور تاج الملوک سے مل کر جانا سات دن بعد

    بچھڑوں کے جو ملنے کا بیاں ہے

    یوں خامہ خوشی سے تر زباں ہے

    روح افزا کو جو کھو کے پایا

    مژدہ شاہ ارم تک آیا

    جانا تھا یگانگی میں لازم

    ملنے کو ہوئی جمیلہ عازم

    وہ ساکن خانۂ سلاسل

    یعنی وہ بکاولی بے دل

    کہتی تھی کہ پیچ سے نکلتی

    خواہاں یہ ہوئی کہ میں بھی چلتی

    سن لی قیدی کی زار نالی

    زنجیر کے پیچ سے نکالی

    تخت ان کی سواریوں کے آئے

    اڑتے وہ ہوا کے جھونکے آئے

    بانوے شہ ارم جمیلہ

    دخت اس کی بکاولی عقیلہ

    روح افزا سے ہوئیں بغل گیر

    صورت پوچھی، کہا کہ تقدیر

    کہ سن کے مبارک و سلامت

    بیٹھ اٹھ کے ہوئی جمیلہ رخصت

    روح افزا نے کہا: چچی جان!

    تم جاؤ، رہیں بکاولی جان

    خاطر سے کہا کہ خیر، لیکن

    لے جاؤں گی خود میں ساتویں دن

    یہ کہہ کے، وہ وحشت مجسم

    آہو سی ارم کو کر گئی رم

    روح افزا نے کہا بہن سے

    بہتر کوئی جا نہیں چمن سے

    گل گشت کریں چلو، کہا: خیر

    کیا جانے کہ ہوگی سیر میں سیر

    چل پھر کے، ہنسی ہنسی میں پوچھا

    کھونا، ملنا بہن! یہ کیا تھا؟

    روح افزا نے کہا کہ ہمشیر!

    میں نے یہ سنا کہ تو ہے دل گیر

    واللہ کہ چھان کر خدائی

    تیرے پیارے کو ڈھونڈھ لائی

    سمجھی ہو ہنسی، کہا: سڑن ہو

    نادان ہو، کیا کہوں بہن ہو

    ہم کو یہ ہنسی نہیں گوارا

    پیارا ہوئے گا وہ تمھارا

    پیارا جو نہ تھا، تو کھو گئیں کیوں؟

    بد راہ بھی آپ ہو گئیں، کیوں؟

    بولی وہ کہ آشنا تمھارا

    پیارا نہیں، پیاری کا ہے پیارا

    گر اس کی تلاش میں میں کھوئی

    بد راہ نہ کہہ سکے گا کوئی

    جو چاہو کہو، جواب کیا دوں

    قائل نہیں ہوتی ہو، دکھا دوں

    وہ جوگی، وہ دھونی اور وہ آسن

    دکھلایا، تو تھی اسی کی جوگن

    دیکھا، تو دکھا رہی تھی تقدیر

    کوشش کا اثر، کشش کی تاثیر

    روح افزا ان کے بیچ میں واں

    قالب تھی میاں جان و جاناں

    دونوں کا بہ دل تھا وصل منظور

    مانند حجاب ہو گئی دور

    وہ غرقۂ بحر ظلم و بیداد

    دریا رویا، سنا کے افتاد

    خاطر کی کدورتیں عیاں کیں

    چشموں کی وہ صورتیں بیاں کیں

    رو رو کے بکاولی دل افگار

    بولی کہ خدا کو علم ہے یار!

    پھرتا تھا تو چشم و دل میں میرے

    دیدے مرے نقش پا تھے تیرے

    ہم چشم پھرے تھے مثل مژگاں

    ہم سایہ تھے سب کشیدہ داماں

    گھر میں رہنا گراں تھا میرا

    زنجیر کا گھر مکاں تھا میرا

    جو کہہ کے ’’سڑن‘‘ پکارتا تھا

    پتھر سا کھینچ مارتا تھا

    سختی سہی یا کڑی اٹھائی

    افتاد تھی، جو پڑی، اٹھائی

    طالع سے کسے تھی ایسی امید

    نکلا ہے کدھر سے آج خورشید!

    کیوں منہ پہ شفق خوشی سے پھولی

    کیا شام وصال راہ بھولی!

    یہ کہہ کے، ملے بہم وہ ایسے

    صفحے خط تو اماں کے جیسے

    یک جان و دو تن تھے سرو بالا

    صحبت کا مزہ ہوا دو بالا

    درباں سی تھی درپہ روح افزا

    تھا پیش نظر حیا کا پردا

    جب بیٹھے ہوس نکال کے وہ

    وارد ہوئی دیکھ بھال کے وہ

    بول اٹھی بکاولی کہ واری!

    محرم کا ہے کام پردہ داری

    وہ بولی: مجھے تو کچھ نہ آیا

    تم نے مگر اب تو ہے سکھایا

    کیا جانیں ابھی بدا ہے کیا کیا

    اس عمر میں سیکھنا ہے کیا کیا

    بارے، وہ مہ دو ہفتہ باہم

    یک ہفتہ رہے انیس و ہمدم

    سمجھے ہفتے کی میہمانی

    ہر ہفت عروس شادمانی

    وعدے پہ جمیلہ ساتویں دن

    آئی، تو تھا حیلہ غیر ممکن

    ساتھ اس کے رواں ہوئی وہ گل رو

    ہوش اس کے ہوا ہوئے، کہے تو

    چاہا کہ وہ تاج رکھ کے سر پر

    رہیے رو پوش ساتھ چل کر

    دامن کو پکڑ کے روح افزا

    بولی کہ کدھر کیا ارادا؟

    الفت کے بہت نہ جوش میں آؤ

    کچھ خیر ہے تم کو، ہوش میں آؤ

    نافہمی سے خوار ہو چکے ہو

    اب تو سیکھو کہ کھو چکے ہو

    کار مشاطہ خود نہ کیجے

    انگارے کو ہاتھ سے نہ لیجے

    جلدی تمھیں کیا ضرور، دم لو

    بے دل نہ ہو، قول لو، قسم لو

    گھبراؤ نہ، پا کے نا مرادی

    غم کھاؤ، جو چاہتے ہو شادی

    سوچا، تو نہ تھا صلاح، الجھنا

    دانائی تھی بات کا سمجھنا

    پیغام لے جانا حسن آرا کا بکاولی کی شادی کے واسطے

    بے دل نے جگہ جو جی میں پائی

    یوں خامے نے کی زباں کشائی

    وہ شکر گزار روح افزا

    ماں سے بولی کہ حسن آرا!

    واجب ہے ادائے حق مہماں

    احساں کا عوض، نہیں جز احساں

    حسن آرا نے کہا کہ بہتر

    جو اپنے سے ہو، نہیں میں باہر

    بولی وہ کہ یہ فقیر، جوگی

    ہے عشق بکاولی کا روگی

    میں اس کے سبب بچی ہوں جی سے

    یہ میرے سبب ملے پری سے

    رازن ان کا کیا جو آشکارا

    راضی ہوئی سن کے حسن آرا

    بلوا کے مصور اک کہن سال

    کھچوائی اس آدمی کی تمثال

    وہ صورت حال ارم میں لائی

    خلوت میں جمیلہ پاس آئی

    چھیڑا کہ ہو مہ سے عقد پرویں

    پیوند نہاں گل ہو نسریں

    واجب نہیں اب تامل اس میں

    بھریے وہیں تک، نہ چھلکے جس میں

    بولی وہ جمیلہ: کیا بتاؤں!

    تو اپنی ہے، تجھ سے کیا چھپاؤں

    سودا ہے مری بکاولی کو

    ہے چاہ بشر کی باولی کو

    مشہور ہے ضد انس و جانی

    یک جا نہیں رکھتے آگ پانی

    حسن آرا نے کہا: جمیلہ!

    مجھ کو یہ نہیں پسند حیلہ

    کاوش تری بے ثبات ہے یہ

    سو بات کی ایک بات ہے یہ

    دو دل جو ہوں جانبین راضی

    یہ جان لے کیا کرے گا قاضی؟

    بولی وہ جمیلہ: ہوش میں آؤ

    جاکر کسی اور کو یہ سمجھاؤ

    تجویز کے آپ کی میں قرباں

    لے جائے مری پیر کو انساں!

    حسن آرا نے کہا کہ خاموش!

    شعلے کو کیا ہے کس نے خس پوش؟

    اسباب نہ جمع کر ضرر کے

    رکھ پنبہ نہ داغ پر شرر کے

    بولی وہ جمیلہ کہ کروں کیا؟

    وہ بولی: نہ سمجھی کہتی ہوں کیا

    جب دل ہی پری کا آ گیا ہے

    انساں ہے، تو کیا مضایقا ہے

    انساں ہی تھے حضرت سلیماں

    انساں ہی تھے مسیح دوراں

    یہ قطرہ بحر کبریائی

    دریا ہے، جو ہوئے آشنائی

    کیا شکوہ اگر پری نہ سمجھے

    افسوس جو آدمی نہ سمجھے

    دم، دھاگے میں رشتہ نفس کے

    پھندے میں پھنسا ہے پیش و پس کے

    بیاہ ہونا بکاولی کا تاج الملوک کے ساتھ اور رہنا ارم میں

    شادی کے لیے، ہے کلک شنجرف

    انگشت قبول دیدۂ حرف

    حسن آرا تھی جو نیک تدبیر

    دکھلائی جمیلہ کو وہ تصویر

    پہچان کے خال و خط سے انداز

    وہ چپ جو رہی، تو یہ سخن ساز

    بولی: کہو، کیوںْ کہا کہ مانا

    پر، کھوئے ہوئے کا کیا ٹھکانا؟

    وہ بولی کہ تجھ کو اس سے کیا ہے

    ہم نے تو سمجھ کے کچھ کہا ہے

    ٹھہری یہ غرض کہ آج کی رات

    فیروز شہ آگے چھیڑیے بات

    جب سونے کو وہ محل میں آیا

    افسانۂ عشق اسے سنایا

    یاد اس نے کیا بکاولی کو

    لے آئے اڑا کے اس پری کو

    تصویر بشر دکھائی اس نے

    شادی کی خبر سنائی اس نے

    دیکھا، تو نہ فرق تھا سر مو

    جانچے خط و خال و چشم و ابرو

    نقشے سے وہی نگار پایا

    قسمت کا لکھا سا آگے آیا

    کہنے لگی دل میں، یا الٰہی!

    شر ہو نہ کہیں یہ خیر خواہی

    پیارے سے نہ ہو خلاف وعدا

    کیا سوچتی ہوں نصیب اعدا

    دیکھا، تو وہ بھیدی حسن آرا

    کرتی تھی اسی کے رخ نظارا

    روح افزا کا جو آگیا دھیان

    تسکیں ہوئی، آئی جان میں جان

    جانا کہ بہار فصل سے ہے

    یہ نقل مطابق اصل سے ہے

    اقرار میں تھی جو بے حیائی

    شرمائی، لجائی، مسکرائی

    حسن آرا نے کہا: مبارک!

    ایجاب اس نے کیا، مبارک!

    سج دھج یہ بنی ادھر بنائے

    بن کے ٹھن کے بنا ادھر سے آئے

    سیارہ شناسی کو بلایا

    ساعت ٹھہرائی، دن دکھایا

    شادی کی خبر سے خوش خوش آئی

    مشتاق کو خوش خبر سنائی

    راتوں کو جو گنتے تھے ستارے

    دن گننے لگے خوشی سے بارے

    واں منہدی نے چومے پاے خورشید

    یاں سبز ہوا نہال امید

    وہ واں پہ گلاب سے نہائی

    یاں تازگی آبرو نے پائی

    واں غازے سے رخ: شفق میں خورشید

    یاں جم گیا منہ پہ رنگ امید

    افشاں ہوئی واں ستارہ افشاں

    یاں جیغے سے روشنی دو چنداں

    واں مانگ سے رنگ کہکشاں ماند

    یاں شملۂ سر سے ہالے میں چاند

    واں زلف نے کھائے پیچ پر پیچ

    طرہ کلغی پہ یاں تھا سر پیچ

    آنچل ہوئے واں حجاب عارض

    سہرا ہوا یاں نقاب عارض

    زیبا ہوا واں بدن پہ گہنا

    یاں جامہ وفا کا اس نے پہنا

    محرم کے کسے گئے ادھر بند

    ہمت کا بندھا ادھر کمر بند

    واں گل سے بہار بوستاں ہے

    آرایش تخت گل یہاں ہے

    الماس کے واں تھے جھاڑ، فانوس

    یاں جلوہ فروش تخت طاؤس

    مہتاب سے چاندنی کا واں فرش

    یاں چرخی سے چرخ میں سر عرش

    واں جلوے حنائی انگلیوں کے

    یاں روشنی کے تھے پنج شاخے

    بادل سے واں گرج رہے تھے

    یاں دھوم سے باجے بج رہے تھے

    واں پریوں میں ذکر آدمی زاد

    نوشہ کے جلو میں یاں پری زاد

    گل گوں تھا کسی کا باد رفتار

    گل رنگ کسی کا تھا ہوا دار

    ہاتھی تھے، تو مستیوں کی دھت تھی

    گھوڑے تھے، تو چابکی کی لت تھی

    وہ ماہ کہ تھا سوار شبدیز

    تھا پا بہ رکاب شوق مہمیز

    در تک جو برات ادھر سے آئی

    کی سب نے ادھر سے پیشوائی

    فیروز و مظفر ایسے دو شاہ

    پر نور تھے جیسے مہر اور ماہ

    باران گلاب و بارش گل

    ہوکر، بڑھے آگے باتجمل

    سلطاں فیروز رشک جم تھا

    نوشہ مسند پہ جم کے بیٹھا

    ہریالے بنے کا شور و غل تھا

    سنبل کا چنور، تو چتر گل تھا

    گل سے خوانوں میں زردہ لایا

    ان غنچہ دہانوں کو کھلایا

    خورشید سا آفتابہ لائے

    منہ ہاتھ ہر ایک کے دھلائے

    قلیاں پیے مشک بو، دھواں دھار

    بیڑے چکھے پان کے مزے دار

    جب عقد کی ان کے ساعت آئی

    دو رشتوں میں اک گرہ لگائی

    یک جا کیے وہ عروس د اماد

    وہ جان پری، یہ آدمی زاد

    حیرت نے آئنہ دکھایا

    شربت دیدار نے پلایا

    زلفیں ہوئیں چہرے کی بلاچیں

    ٹوٹا، وہ نگاہیں سحر آگیں

    جو چہرۂ آتشیں پہ تل تھا

    اسپند نگاہ بد بہ دل تھا

    جوڑی جو ملی بنے بنی کی

    سنگت ہوئی راگ راگنی کی

    جو گائنیں تھیں، شہانے گائیں

    لیتے ہوئے نیگ، راگ لائیں

    حق پا کے، جو رکھتی تھیں قدامت

    بول اٹھیں مبارک و سلامت

    پیارا تھا بنے بنی کا جوڑا

    خلوت میں دلھا دلھن کو چھوڑا

    پریاں کہ ہزار ہا بھری تھیں

    ارمان سی سب وہاں سے نکلیں

    بے پردگی ہوتی تھی جو ان میں

    دروازوں نے بند کر لیں آنکھیں

    طو مارے حجاب کو کیا طے

    ساغر پہ جھکا وہ شیشۂ مے

    مستانہ ملا دلھن سے نو شاہ

    صحبت ہوئی دخت رز سے دل خواہ

    مست آنکھیں تھیں رشک جام سرشار

    لب ریز ہوئی شراب دیدار

    گردن، تھی صراحی مے ناب

    ہاتھ آئی وہ بہر مستی خواب

    جب اوڑھی عروس مہ نے چادر

    نکلا پردے سے شاہ خاور

    ثابت وہ جو شب کو تھے ستارے

    خورشید نکلتے ہی سدھارے

    یعنی دولھا دلھن سحر گاہ

    نکلے آرام گہ سے دل خواہ

    منہ گھر کو براتیوں نے موڑا

    محظوظ دلھا دلھن کو چھوڑا

    وہ حوض گلاب میں نہایا

    یاں رخ پہ عرق، گلاب پایا

    واں جوڑا چست و تنگ بدلا

    یاں جوڑے کے منہ کا رنگ بدلا

    وہ راگ کا دیکھنے لگا رنگ

    یاں پردے میں چھیڑ تھی خوش آہنگ

    رخصت ہونا تاج الملوک کا بکاولی کو لے کر اور آنا گلشن نگاریں میں

    غربت سے جو اب سر وطن ہے

    کل دو زباں یہ حرف زن ہے

    شادی ہو کر، وہ خانہ آباد

    سوچا کہ بنا میں خانہ داماد

    غربت میں وطن کی دھن سمائی

    اس فیل کو یاد ہند آئی

    خلوت میں ہوا پری سے گویا

    دنیا میں ہیں سب وطن کے جویا

    پانی تہ خاک کو رواں ہے

    لو شعلے کی سوے آسماں ہے

    عزم سقر وطن سمجھ کر

    بولی وہ بکاولی کہ بہتر

    چلے گا، تو ساتھ ہیں بلا عذر

    رہیے گا، تو بندگی میں کیا عذر

    ہاتھ اس کا پکڑ کے باہر آئی

    ماں باپ کے پاس دختر آئی

    ہوتے ہی دو چار خویش و دختر

    دو سے ہوئے چار اس جگہ پر

    وہ تینوں تھے قوم کے پری زاد

    چوتھا ان میں یہ آدمی زاد

    چومی اس نے زمین خدمت

    غربت سے وطن کی چاہی رخصت

    فیروز شہ و جمیلہ بانو

    دونوں ہوئے سن کے سر بہ زانو

    غوطے میں جو آ گئے وہ یکسر

    بولی ماں باپ سے وہ دختر

    پردیسیوں سے جو کی ہے نسبت

    اب کیجے ہنسی خوشی سے رخصت

    دعویٰ نہیں کچھ دیے ہوئے پر

    قائم رہیے کیے ہوئے پر

    لازم جو ہو، اس میں کد نہ کیجے

    سائل کا سوال ردنہ کیجے

    بولے وہ کہ بخت تھا زبردست

    خورشید کو ذرے نے کیا پست

    انساں سے جھکی پری کی گردن

    کانٹے سے رکا ہوا کا دامن

    یہ کہہ کے، منگائے دو ہوا دار

    سو دیو بلائے باد رفتار

    ہو کر دیووں کے زینت دوش

    رخصت وہ ادھر ہوئے ادھر ہوش

    اشکوں سے شگوں لیا نرالا

    آئینہ رخ پہ پانی ڈالا

    سونپا مختار کو جو مجبور

    گھر پاس تھا اور وہ منزلوں دور

    آئے تو وہ باغ سحر بنیاد

    تھا آب و ہواے خوش سے آباد

    خیل و خدم اس کے منتظر تھے

    مانند حواس منتشر تھے

    پہچان کے سب نے غل مچایا:

    آیا تاج الملوک آیا!

    داخل جو ہوئے محل کے اندر

    محمودہ لپکی، دوڑی دلبر

    پوچھا: خوش خوش؟ کہا کہ دم لو

    دیکھو یہ کون ہیں، قدم لو

    دلبر! یہ وہی بکاولی ہے

    محمودہ! دیکھ کیا پری ہے!

    سبحان اللہ کہہ کے، دلبر

    بولی کہ یہ گھر ہوا منور

    محمودہ نے کہا: مبارک!

    خوشنودی آشنا مبارک!

    ان مختصروں نے جب دیا طول

    بولی وہ بکاولی کہ معقول

    یہ سمجھو، تو کچھ نہیں ہے تکرار

    خوش پوش ہے ایک، جوڑے دو چار

    درجے درجے رہیں وہ ذی ہوش

    ہم خانہ و ہمدم و ہم آغوش

    طلب ہونا بکاولی کا راجا اندر کی محفل میں اور آگاہ ہو کر ہمراہ جانا تاج الملوک کا

    تقدیر سے ہیں جو شادی و رنج

    اب یوں نے خامہ ہے نواسنج

    ازبس کہ یہ چرخ فتنہ انگیز

    ہے خرمن عیش پر شرر ریز

    یک چند وہ مہ تھی کا ہشوں میں

    گزری اک عمر خواہشوں میں

    تقدیر سے جب مراد پائی

    راجا اندر کو یاد آئی

    اندراسن امر نگر ہے شہر ایک

    خلقت ہے وہاں کی زندہ دل نیک

    اندر، ہے بادشاہ اس کا

    آسن، ہے تخت گاہ اس کا

    مصؤں وہ قضا سے اس قدر ہے

    اس بستی کا نام امر نگر ہے

    بزدانیوں کا ہے مسکن اس میں

    روحانیوں کا نشیمن اس میں

    کہتے ہیں مور خان ہندی

    آباد ہوا پہ ہے وہ بستی

    راجا، کہ کمال پارسا ہے

    مقبول جناب کبریا ہے

    خالق نے دیا ہے فوق اس کو

    نغمے سے ہے شوق ذوق اس کو

    انساں کا سرود و رقص کیا ہے

    پریوں کا ناچ دیکھتا ہے

    باری باری سے، جو پری ہے

    راجا اند کی مجرئی ہے

    لیکن جو بکاولی دل افگار

    باری پہ پہنچ سکی نہ بیمار

    اک شب راجا تھا محفل آرا

    یاد آئی بکاولی دل آرا

    پوچھا پریوں سے کچھ خبر ہے؟

    شہ زادی بکاولی کدھر ہے؟

    منہ پھیر کے ایک مسکرائی

    آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی

    چتون کو ملا کے رہ گئی ایک

    ہونٹھوں کو ہلا کے رہ گئی ایک

    بولا وہ کہ چپ ہو کیوں، سبب کیا؟

    بولیں وہ کہ کہیے بے ادب کیا!

    ناتا پریوں سے اس نے توڑا

    رشتہ ایک آدمی سے جوڑا

    وہ سن کے خفا ہوا، کہا: جاؤ

    جس طرح سے بیٹھی ہو، اٹھا لاؤ

    پریاں اڑیں، اوپر اوپر آئیں

    مہتابی پہ مثل ابر چھائیں

    دیکھا تو وہ دونوں کرتے تھے خواب

    گل تکیے تھے آفتاب و مہتاب

    ہم بستر آدمی، پری تھی

    سایے کی بغل میں چاندنی تھی

    غافل جو مو کلوں نے پایا

    اس نقش مراد کو جگایا

    جاگی، تو سب اس کے جوڑ کی تھیں

    اند رکے اکھاڑے کی پری تھیں

    بولیں کہ طلب کیا ہے، چلیے

    جوڑا یہ خراب ہے، بدلیے

    اٹھی، اسے جی کی طرح چھوڑا

    بدلا مانند رنگ جوڑا

    ساتھ ان کے وہ تابہ محفل آئی

    لرزاں لرزاں مقابل آئی

    راجا نے نگاہ کی غضب سے

    پوچھا کہ یہ بے حیائی کب سے؟

    بو آتی ہے آدمی کی، لے جاؤ

    ناپاک ہے، آگ اسے دکھا لاؤ

    شعلہ سا پری کا جسم کانپا

    منہ دامن اشک تر سے ڈھانپا

    پریوں نے کشاں کشاں نکالا

    صندل آتش کدے میں ڈالا

    کافور سی جل اٹھی سراپا

    ٹھنڈی ہوئیں، تھا جنھیں جلایا

    جو آتش گل نہ لے چمن سے

    جھونکا اسے آگ میں جلن سے

    جس رخ پہ تھی کاکل معنبر

    تھا چشم زدن میں دور، اخگر

    جس جسم پہ تھی نفیس پوشاک

    شعلے کے سوا نہ کچھ بھی تھا خاک

    عیسیٰ نفس ایک خضر آئی

    چھینٹے سے، جلی ہوئی جلائی

    شعلے سے زیادہ پاک داماں

    آکر ہوئی انجمن میں رقصاں

    ناچی گائی غریب ناچار

    اغیار، ادا سے کرلیے یار

    برخاست کا وقت صبح دم تھا

    راجا، وہ کہ صاحب کرم تھا

    بولا: جا، یوں ہی آئیو روز

    جل بجھ کے سدا سنائیو سوز

    رخصت پاتے ہی، وہ ہوائی

    پراں پراں ہوا سی آئی

    پشواز کنار حوض اتاری

    شب کی پوشاک پہنی ساری

    بے تاب آرام گہ تک آئی

    ہم خواب کی آنکھ بند پائی

    یو سیج پہ آ کے سوئی بے تاب

    جس شکل سے آئے آنکھ میں خواب

    وہ آہوے مست خواب خرگوش

    یعنی تاج الملوک بے ہوش

    اس شب کو، بغل میں آکے جاگا

    پر دوسری شب وہ، جا کے جاگا

    دیکھا تو وہ متصل نہیں ہے

    پہلو میں جگر کے دل نہیں ہے

    حاجت کے گماں سے جب ہوئی دیر

    جھنجلا کے پلنگ سے اٹھا شیر

    دائیں دیکھا، نظر نہ آئی

    بائیں دیکھا، کہیں نہ پائی

    عورت تھی، گمان بد سے کھٹکا

    جانا کہیں دل کسی سے اٹکا

    اژدر نظر آیا در کا سایہ

    سمجھا ہو پلنگ، چار پایہ

    آنکھوں میں چھا گیا اندھیرا

    پل مارتے ہو گیا سویرا

    جاگا، تو پری بغل میں پائی

    وہ نقش وفا عمل میں پائی

    دانستہ خبر ہوا نہ بے تاب

    گویا کہ وہ شب کا حال، تھا خواب

    جب مہر فلک گیا لب بام

    مہتابی پہ آئے وہ سر شام

    معمول سے بزم میں ہوئے جمع

    مینا و کباب و معجمر و شمع

    جام اس نے بھرا، کہا: پیالے

    دل اس کا بھرا تھا، جام کیا لے

    ٹھانی تھی کہ آج رہ کے بیدار

    دیکھوں جاتی کہاں ہے عیار

    بولا کہ ہیں درد سر کے کچھ طور

    میں آج نہ ہوں گا شامل دور

    ہٹ اس نے جو کی، تو ہاتھ مارا

    شیشہ ہوا چور چور سارا

    ہوتی ہے جو نوک شیشہ خنجر

    چرکے لگے اس کی انگلیوں پر

    بیداری شب کی گھات پائی

    حکمت سر دست ہاتھ آئی

    کف میں نمکیں کباب لے کر

    چھڑ کا نمک ان جراحتوں پر

    بند آنکھیں کیے ہوئے شکر لب

    بیدار رہا، تو آخر شب

    پریوں نے ہوا سے تخت اتارا

    ثابت ہوا ٹوٹتا ستارا

    سوتا اسے جان کر، اٹھی وہ

    پوشاک بدلنے کو گئی وہ

    اس تخت کا، یہ، پکڑ کے پایہ

    پوشیدہ ہوا بہ رنگ سایہ

    بن ٹھن کے جب آئی رشک ناہید

    ذرہ ہوا ہم رکاب خورشید

    جاتے ہی زمیں سے آسماں پر

    پہنچی اس بزم میں سماں پر

    لوگوں سے بھرا وہ دائرہ تھا

    پر صوت و صدا وہ دائرہ تھا

    ٹھیکے پہ پہنچ کے تخت ٹھہرا

    مرکز پہ وہ نجم بخت ٹھہرا

    آتش کدہ پریوں نے بنا کر

    پھینکا اسے، پھول سا اٹھا کر

    شہ زادہ کہ زیر تخت زرکار

    تھا پہلوے گل میں صورت خار

    فریاد نہ کرنے پایا مضطر

    تاباں ہوئی راکھ میں سے اخگر

    راجا جس رخ تھا محفل آرا

    دل لیتی ہوئی چلی دل آرا

    ہمراہ چلاوہ، چھوڑ پایہ

    آگے تھی پری، تو پیچھے سایہ

    محفل میں جو آئی شمع محفل

    پروانوں کا ہاتھ سے گیا دل

    جو گاتی تھیں، بیٹھیں مثال آواز

    مجرے کو اٹھی وہ صورت ناز

    وہ ناچنے کیا کھڑی ہوئی تھی

    خود راگنی آ کھڑی ہوئی تھی

    رقص اس کا اگرچہ خوش نما تھا

    سنگت کا پکھاوجی تھکا تھا

    شہ زادے نے دیکھ دائیں بائیں

    لیں طبلہ نواز کی بلائیں

    آہستہ کہا: کہو تو آؤں

    فرماؤ تو بندگی بجاؤں

    اس نے جو پکھاوج اس کو دے دی

    کیفیت اتفاق نے دی

    تھا سم پہ یہ اس پری کا نقشا

    سب آنکھ ملا کے کہتے تھے: آ

    محظوظ کیا جو سب کو اک بار

    بحشارا جانے نو لکھا ہار

    انداز سے، اس نے لے کے مالا

    کاندھے پہ پکھاوجی کے ڈالا

    برخاست کا تھا وہ شاہ زادہ فی الفور

    پنہاں ہوا زیر تخت اسی طور

    باد سحری چلی جو سن سے

    وہ شمع سدھاری انجمن سے

    خورشید سے پہلے اڑ کر آئی

    تاروں کی چھاؤں میں گھر آئی

    وہ حوض کے رخ چلی، اتر کر

    یہ آنکھ بچا کے سوے بستر

    وہ آئی، تو غافل اس کو پایا

    آغوش میں آ گلے لگایا

    جب پردۂ صبح ہو گیا فاش

    خنداں خنداں اٹھا وہ بشاش

    اس غنچہ دہن کا مسکرانا

    بے رنگ بکاولی نے جانا

    ہنستے ہنستے کہا: ہنسے کیوں؟

    ہنستا نہیں بے سبب کوئی یوں

    بولا وہ کہ خواب دیکھا تھا

    آتش پہ کباب دیکھتا تھا

    بولی وہ کہ ہم بتائیں تعبیر

    دل سوزی کرے گا کوئی دل گیر

    بولا وہ کہ رات کو افق میں

    خورشید تھا آتش شفق میں

    بولی وہ کہ مہر سے شب و روز

    عالم میں رہو گے رونق افروز

    بولا وہ کہ اک مقام ہو تھا

    گلزار خلیل رو بہ رو تھا

    بولی وہ: بشر ہو تم دلاور

    سرسبز ہو قوم آتشی پر

    بولا وہ کہ دیکھی اک شبستاں

    شعلہ، ہوا انجمن میں رقصاں

    بولی وہ کہ شعلہ، میں پری ہوں

    جو ناچ نچاؤ، ناچتی ہوں

    بولا وہ کہ جب ہوا اجالا

    بخشا مہ انجمن نے ہالا

    ہالہ مہ انجمن کا کیا تھا

    وہ ہار تھا، جو گلے پڑا تھا

    گھبرائی پری کہ ہیں، یہ کیا ہے!

    بولا وہ کہ ہار نو لکھا ہے

    کاندھے پہ تھا جس کے رات ڈالا

    پہچانتی ہو وہ طبلے والا!

    کیوں جی، یہ اکیلے شب کو جانا!

    اوپر اوپر مزے اڑانا!

    یہ سن کے، پری وہ سوختہ تن

    بولی کہ سن او صلاح دشمن!

    میں جا کے جلی تو غم نہیں، ہاے

    ڈر ہے کہ نہ تجھ پہ آنچ آ جائے!

    میرے جلنے پہ خاک ڈالو

    تم نام نہ واں کے چلنے کا لو

    افروختہ آتش حسد ہے

    جلنا یہ، سپند چشم بد ہے

    بولا وہ کہ یہ نہ ہوگا مجھ سے

    میں دو قدم آگے ہوں گا تجھ سے

    سمجھاتی رہی اسے وہ دانا

    لیکن اس نے کہا نہ مانا

    عازم ہوا شب کو، آتے ہی تخت

    یا قسمت! یا نصیب! یا بخت!

    واں جا کے وہ سوچی، اس کو بے لاگ

    لے چلیے، تو راجا لائے گا راگ

    سنگت کا پکھاوجی بتا کے

    گائی یہ غزل، مقام پا کے

    غزل

    ساقی قدح شراب دے دے

    مہتاب میں آفتاب دے دے

    ساقی! باقی جو کچھ ہو، لے لے

    باقی، ساقی! شراب دے دے

    اس بت سے نہیں سوال کچھ اور

    اپنے منہ سے جواب دے دے

    لیلیٰ میں نے تجھے بنایا

    مجنوں مجھ کو خطاب دے دے

    اس گل سے نسیم! زر نہیں مانگ

    جو چاہے، وہ بے حساب دے دے

    نصف پتھر ہو جانا بکاولی کا راجا اندر کی بد دعا سے

    اور بت خانے میں رہ کر ملنا تاج الملوک سے،

    اور کھدنا بت خانے کا رانی چتراوت کے حکم سے

    ہے اب جو بیان سنگساری

    یوں پاے قلم ہوا ہے بھاری

    خوش لہجہ بہت بکاولی تھی

    گانی اور ناچنی بڑی تھی

    راجا نے کہا کہ خوش ہوں تجھ سے

    جو چاہے، آج مانگ مجھ سے

    کھلا کے اسی پکھاوجی کو

    مانگا، کہ یہ دو بکاولی کو

    ارمان یہی، ہوس یہی ہے

    خاطر کی مراد بس یہی ہے

    مانگا جو بشر، پری نے بے باک

    راجا اندر ہوا غضب ناک

    بولا کہ اس آدمی کی یہ تاب

    لے چشمۂ آفتاب سے آب!

    کھویا تجھے تیر آرزو نے

    جا، تیری سزا یہ ہے، کہ تو نے

    کی ہے حرکت خلاف آئیں

    پتھر کا ہو نصف جسم پائیں

    اس سختی سے کچھ دنوں رہے تو

    بعد اس کے خاک میں ملے تو

    قالب ترا انقلاب کھائے

    جامے میں تو آدمی کے آئے

    بارہ برس اس طرح گزر کر

    پھر تجھ کو ملے پری کا پیکر

    اس وقت جہاں تو چاہے، جائے

    تو اس کو ملے، وہ تجھ کو پائے

    روئی وہ بکاولی یہ سن کے

    تڑپا شہ زادہ سر کو دھن کے

    خواہش جو بلاے جاں ہوئی وہ

    ہلکا ہوا یہ، گراں ہوئی وہ

    ناری تھی پری، ہوا بتائی

    خاکی تھا بشر، زمیں جھکائی

    سایہ سا زمیں پہ جب گرا وہ

    افتاد کو سوچنے لگا وہ

    سبزے کی دھوپ چھاؤں مخمل

    صحرا میں بچھی تھی، سو گیا شل

    چشمہ ایک آفتاب سا تھا

    عاشق کی طرح بھرا ہوا تھا

    پریاں کچھ ادھر نہانے آئیں

    دیکھا وہ بشر، تو کھل کھلائیں

    بولیں: یہ وہی پکھاوجی ہے

    عاشق جس پر بکاولی ہے

    وہ چونک کے بول اٹھا کہ للہ

    بتلاؤ کہا ہے وہ؟ کہا: آہ!

    اندر کے غضب سے، بن کے پتھر

    ہے بت سی وہ ایک مٹھ کے اندر

    پوچھا کہ کدھر؟ کہا: بہت دور

    بولا وہ کہ پھر؟ کہا کہ مجبور

    یہ کہہ کے اتاری سب نے پوشاک

    باہر ہوئیں جامے سے وہ بے باک

    پردے کا جو کچھ خیال آیا

    تن چادر آب سے چھپایا

    بے ننگ یہ سب نہا رہی تھیں

    موجیں باہم اڑا رہی تھیں

    سوچا وہ کہ ان کو دیجیے جل

    خس پوش کیے وہ جامۂ گل

    جب خوب وہ شعلہ رو نہائیں

    باہر بہ صد آب و تاب آئیں

    پوشاک دھری ہوئی، نہ پائی

    جانا کہ حریف نے اڑائی

    جھک جھک کے بدن چراتی آئیں

    رک رک کے قدم بڑھاتی آئیں

    دکھلائی کسی نے چشم جادو

    چمکائی کسی نے تیغ ابرو

    جھنجلا کے کہا کہ لاؤ، مانو

    ہم کو بھی بکاولی نہ جانو

    بولا وہ: چہ خوش، تم ایسی کیا ہو!

    ڈرنے کا نہیں میں، کیا بلا ہو!

    پوشاک جو لینی ہو، تو پہنچاؤ

    بولیں وہ: چلو، کہا: قسم کھاؤ

    عریانی کے ننگ سے لجائیں

    ستار کی قسم سب نے کھائیں

    شہ زادے نے، کر کے پاس ان کا

    خلعت سا دیا لباس ان کا

    پریاں ہوئیں رخت سج کے خرسند

    ہو جیسے ہوا حباب میں بند

    شانے پہ چڑھا کے مثل گیسو

    اس گل کو اڑایا صورت بو

    واقف اس بت کدے سے تھیں وہ

    سنگل دیپ اس کو لے گئیں وہ

    وہ جاے بکاولی بتائی

    دیوانے کو باولی بتائی

    بت خانے میں تھا طلسم کا در

    ششدر ہوا چار سمت پھر کر

    عقدہ کھلا شام ہو کر اس کا

    شق مثل قمر ہوا در اس کا

    دیکھا، تو وہ بت تھی مٹھ کے اندر

    جسم آدھا پری تھا، آدھا پتھر

    تھی ناف سے لے کر تابہ پا سنگ

    تھا کوہ، سریں کے آگے پا سنگ

    چومے جو قدم اس آدمی نے

    سینے سے لگا لیا پری نے

    نرمی سے کہا: بہ خیر گزری

    کس سختی سے تم بغیر گزری

    ہم پر تو پڑے وہاں یہ پتھر

    تم کیونکے بچے؟ کہا: مقدر

    گر پڑ کے زمیں پہ مثل شبنم

    پھر پریوں کی مہر سے اڑے ہم

    جذبہ تم پاس کھینچ لایا

    سختی اب دور ہو خدایا!

    تا آخر شب فسانے کہہ کر

    بولی وہ پری کہ اے دلاور!

    یہ در، مانند چشم بے خواب

    ہوتا ہے سحر کو بند بے تاب

    پیش از دم صبح تم نکل جاؤ

    کل پھر سر شام خیر سے آؤ

    مصرف کو جو ہو ضرورت زر

    زیور مرا مجھ سے لو، یہ کہہ کر

    کانوں میں موتی کچھ نکالے

    دامن پہ مثال اشک ڈالے

    صدقے وہ بشر ہوا پری کے

    قدموں پہ گرا بکاولی کے

    پانو اس کے چھوئے تویخ سے پائے

    آنسو چھوڑے، گہر اٹھائے

    نکلا جیسے ہی مٹھ کے باہر

    پتھرا گئی چشم حلقۂ در

    آنکھوں سے یہ دیکھنا، ہو قہر

    آگے کو بڑھا، چلا سوے شہر

    بازار میں جا کے بیچے گوہر

    مفلس سے ہوا وہ صاحب زر

    گھوڑا، جوڑا، نفر، حویلی

    جو جو شے چاہیے تھی، لے لی

    جب منزل شب میں رہ رو روز

    بے گوہر شبنم، آیا پر سوز

    گنبد گر دوں کا، تھا جو بے در

    تاباں ہوئے اس میں ماہ و اختر

    سیاروں سے کر کے استخارا

    اس برج کے رخ وہ مہ سدھارا

    دیکھا تو در قبول وا تھا

    رگڑا اٹھی ایڑیوں پہ ما تھا

    شب سایۂ زلف میں بسر کی

    لی، صبح کے ہوتے، راہ گھر کی

    تقدیر نے راستہ بھلایا

    راجا کے محل کی جانب آیا

    چتراوت اس کی ماہ پارہ

    غرفے میں سے کرتی تھی نظارہ

    دیکھا، تو جوان تھا یہ تصویر

    صورت پہ فدا ہوئی وہ بے پیر

    یاں پردۂ در نظر سے گزرا

    واں تیر نظر جگر سے گزرا

    دستور تھا، بیٹی جس کو چاہے

    باپ اس کا اسی کے ساتھ بیاہے

    راجا سے خوش خبر بیاں کی

    مشاطۂ خوش ادا رواں کی

    شادی کی خبر سے وہ یکا یک

    خوش خوش آئی، کہا: مبارک!

    اس شہر کا چترسین راجا

    دختر رکھتا ہے ماہ سیما

    ہر ملک کے شہر یار آئے

    ہر شہر کے تاج دار آئے

    راضی تجھ سے ہوئی وہ بے پیر

    طالع، قسمت، نصیب، تقدیر!

    بے جا وہ ہوا، کہا کہ جاجا

    کیسی رانی، کہاں کا راجا

    دکھلانہ مجھے ہرے ہرے باغ

    غنچے کی گرہ میں کیا ہے جز داغ

    الفت میں ہے آبرو گنوانی

    کب چشمۂ مہر میں ہے پانی

    مکار! تو مجھ سے کرتی ہے زور

    در ہو مرے سامنے سے، چل دور

    ہٹ دیکھ کے اس کی ہٹ گئی وہ

    قسمت کی طرح پلٹ گئی وہ

    پایا جو جواب منتظر نے

    آنکھوں میں لگا خیال پھر نے

    تقدیر کی بات ہونے والی

    زر سے ہوا اس کا ہاتھ خالی

    من سانپ کا ران سے نکالا

    بازار آیا وہ سر و بالا

    کیا جو ہری مول کرتے اس کا

    راجا تک رفتہ رفتہ پہنچا

    جو مدعیوں کا مدعا تھا

    موقع ہو ملا، تو کیا برا تھا

    جھنجھلا کے، ڈرا کے، غل مچا کے

    سمجھا کے، دبا کے، دست پا کے

    من چھین کے، چوری کے بہانے

    بھیجا کھلے بندوں قید خانے

    زنداں میں وہ نیم جاں، وہ بسمل

    زنجیر میں پاؤں، زلف میں دل

    غم کھا کے، لہو کے گھونٹ پینا

    دم کے دھاگوں سے ہونٹھ سینا

    داروغۂ محبس جفا نے

    رانی سے کہا کسی بہانے

    یوسف کی خبر لے او زلیخا!

    زنداں میں ہے وہ عزیز مرتا

    اس چاہ میں کام ہو نہ جائے

    یہ ماہ، تمام ہو نہ جائے

    دانا تھی وہ، جہل خانے آئی

    بگڑی ہوئی کو بنانے آئی

    دیکھا، تو وہ سر نگوں تھا دل گیر

    تھی حلقہ بہ حلقہ چشم و زنجیر

    آنکھ اس سے نہ جب ملائی اس نے

    زنجیر اس کی ہلائی اس نے

    پابند وفا وہ مبتلا تھا

    کب اس کو خیال بند پا تھا

    رانی نے جو بے دلی نگہ کی

    بیڑی کٹوائی بے گنہ کی

    قدموں پہ گری، کہا: اٹھو، آؤ

    انکار و گریز جانے دو، آؤ

    اٹھا وہ پری کی آرزو میں

    یہ سمجھی کہ پھانسا گفتگو میں

    واں دھن کہ صنم سے کد خدا ہوں

    یاں دھیان کہ بت کا پارسا ہوں

    تجویز تے اپنے اپنے مفہوم

    آئے، تو محل میں مچ گئی دھوم

    راجا نے ستارہ داں بلایا

    سعد ین کا زائچہ ملایا

    دن ڈھل کے، وہ ماہ نو سر شام

    غائب ہوا، سیر کر کے کچھ گام

    دروازے کا مٹھ کے دیدہ وا تھا

    توبہ کا در کھلا ہوا تھا

    آیا تو وہ کب سے تکتی راہ

    دیکھا تو کہا: کہاں رہے، واہ!

    دیکھے جو حنائی ہاتھ بے لاگ

    تلووں سے پری کے لگ گئی آگ

    پوچھا کہ بن آئی کس بنی کی؟

    کس راہ کی زن نے رہ زنی کی

    توفیق یہاں تلک جو لاتی

    منہدی پاؤں کی گھس نہ جاتی!

    قدموں سے لگا پسا ہوا وہ

    منہدی کا جو رنگ تھا، کہاں وہ

    رانی کی وہ مہر و سر گرانی

    راجا کی وہ قہر حکم رانی

    من بیچتے اپنا قید ہونا

    داموں کے لیے وہ صید ہونا

    چتراوت کا وہ آپ آنا

    سب کہہ کے، کہا: خدا ہے دانا

    شادی نہیں کچھ خوشی سے مانی

    بے تیرے تھی مرگ، زندگانی

    غم تھا کہ ترے قدم سے چھوٹا

    شادی کے بہانے غم سے چھوٹا

    پیاری! یہ نہیں حنائی چنگال

    ہاتھ ایسے ملے کہ ہو گئے لال

    زنجیروں سے پاؤں ہے نکالا

    زلفوں پہ نہیں ہے ہاتھ ڈالا

    کالے ڈسیں، بال اگر چھوئے ہوں

    چھالے پڑیں، گال اگر چھوئے ہوں

    بگڑی وہ کہ چل، بنانہ باتیں

    مجھ سے کوئی سیکھے ایسی گھاتیں

    میری تجھے ایسی کیا لگی تھی

    تلووں سے ترے حنا لگی تھی

    تنگ آیا تو دیکھ قید خانہ

    آسان نہیں کڑی اٹھانا

    پتھر کی اگر کہو، تو میں ہوں

    فولاد جگر کہو، تو میں ہوں

    سہتی ہوں جہاں کی سختی، سستی

    آسایش جاں نہ تندرستی

    اس تنگ قفس کو سمجھی ہوں باغ

    سنگینی گراں نہ جلنے کا داغ

    قسمت سے مقر ہے اب یہ مامن

    پتھر کے تلے دبا ہے دامن

    کب چاہے گی عقل مصلحت سنج

    تم تو کرو شادی، ہم کریں رنج

    راضی ہیں، خدا کی جو رضا ہو

    ہوتی ہے سحر، چلو ہوا ہو

    وہ معتقد اس کے پاؤں چھو کر

    اٹھا چھاتی پہ رکھ کے پتھر

    آیا، تو وہ نو عروس زیبا

    بستر پہ تھی شکل نقش دیبا

    نیند آئی جو تھی بہ صد کدورت

    تھی چیں بہ جبیں شکن کی صورت

    سوئی تو تھی انتظار میں وہ

    جاگی، تو ملا کنار میں وہ

    سوتے جو کٹی شب جوانی

    سو خفتہ نصیبی اپنی جانی

    تھے صبح سے دونوں شام جویاں

    سب کو ہوئے داخل شبستاں

    دونوں تھے تصوروں میں کامل

    خلوت خانہ تھا گوشۂ دل

    دو آنکھوں کی طرح ایک جا تھے

    پر دل جو ملا نہ تھا، جدا تھے

    کروٹ لے کر وہ عنبریں مو

    اٹھ چلنے کا سوچتا تھا پہلو

    چپکی ہوئی پیٹھ سے وہ دل گیر

    آئینے کی پشت پر تھی تصویر

    حیرت چھائی، تو کھو گئی یہ

    غفلت آئی، تو سو گئی یہ

    غافل اسے چھوڑ کر اٹھا وہ

    لپکا، تو پری کے رخ گیا وہ

    یہ جا کے، ہوئی وہ فتنہ بیدار

    دیکھا تو تھا تکیہ، جاے دل دار

    دوری نے جو حد سے کی درازی

    جانا کہ کہیں ہے عشق بازی

    اس رات کو چپکی ہو رہی وہ

    کل سمجھوں گی، کہہ کے سو رہی وہ

    وقت سحر اس کو پا کے، رانی

    ہم بستر خواب سر گرانی

    خلوت خانے سے باہر آئی

    دربانوں کے پاس در پر آئی

    حکم ان کو دیا کہ شام کو آج

    جانا ہمراہ صاحب تاج

    سایے کی طرح سے ساتھ رہنا

    جو آنکھ سے دیکھنا، وہ کہنا

    جس وقت چلا پری کا مانوس

    سایہ سے پس قدم تھے جاسوس

    وہ مٹھ، وہ پری مقام دیکھا

    وہ برج، وہ مہ تمام دیکھا

    ایک ان میں سے رانی پاس آیا

    کی عرض کہ لو سراغ پایا

    صورت یہ ہے جو نگاہ کی ہے

    اک مٹھ میں مورت اک پری ہے

    انکھوں سے اس انجمن کو دیکھا

    یک جا بت و برہمن کو دیکھا

    لعل و گہر ایک درج میں ہے

    شمس و قمر ایک برج میں ہے

    آنکھ اس کی یہ سن کے خوں میں ڈوبی

    مریخ بنی وہ ماہ خوبی

    یاں اس نے کہا: وہ برج کھدواؤ

    واں بولی بکاولی کہ لو، جاؤ

    یاں سے چلے لوگ، واں سے وہ زار

    لپکا یہ ادھر، ادھر وہ خوں خوار

    توڑا وہ مٹھ حباب آسا

    پھوڑا جلے دل کا آبلہ سا

    شہ زادے کے آگے بے حیا نے

    انعام دیا کھلے خزانے

    پاس اس کا ذرا نہیں کیا کچھ

    اور اس سے کہا کہ لو، سنا کچھ

    بنیاد فساد کھود ڈالی

    جاسوسوں نے کھود کر نکالی

    غائب رہتے تھے روز شب بھر

    اب دیکھو گے جا کے خاک پتھر

    سنتے ہی، وہ بے قرار لپکا

    دوڑا بے اختیار لپکا

    دیکھا تو وہ ماہ رو نہ وہ برج

    وہ لعل گراں بہانہ وہ درج

    شور اس نے کیا کہ کیا یہ شر ہے؟

    آواز آئی کہ بے خبر ہے!

    بنیاد بر افگنی کی بانی

    ہے سوت مری، تری وہ رانی

    کھدوایا جب اس نے مٹھ بہ صد جور

    رہنے کو ہمیں ملا مکاں اور

    واں ٹھوکریں کھانی سخت تھیں تنگ

    سنگست بجاے خویشتن سنگ

    ہونا تھا یہی، تو شکوہ کیا ہے

    جا کچھ دنوں صبر کر، خدا ہے

    حیرت زدہ، چپ، خموش، سنسان

    ٹوٹا ہوا دل، بندھا ہوا دھیان

    آیا، تو ہنسی وہ شوخ رانی

    گویا وہ ہوا بہ خوش بیانی

    تقدیر کو گل کھلانا تھا یوں

    تو خار سے بیخ کن ہوئی کیوں!

    دوراں کو تھا انقلاب منظور

    مختار خدا ہے، بندہ مجبور

    اس دن سے ہوا وہ اس سے مانوس

    راتوں کو رہے وہ شمع و فانوس

    جب کام روا ہوئی وہ رانی

    گزری بہ ہزار کامرانی

    پیدا ہونا بکاولی کا دہقان کے گھر میں اور جوان ہو کر ملنا تاج الملوک سے

    نقطوں سے ہے اب قلم کا دہقاں

    صفحے کی زمیں پہ دانہ افشاں

    جب مٹھ کی رہی نہ بیخ و بنیاد

    جیسے کہ ہو گرد باد برباد

    دہقاں تھے نئی زمیں کے جویا

    سرسوں کا کھیت انہوں نے بویا

    جب چین سے کر چکے تردد

    کھیتی کی ہوئی زمیں پہ واشد

    دہقان کی زوجہ کے کھلے بھاگ

    کھانے لگی نوچ نوچ کے ساگ

    کھاتے ہی حمل کا ڈھنگ پایا

    سرسوں سا ہتیلی پر جمایا

    وہ بانج تھی، جب حمل قبولی

    سرسوں آنکھوں میں سب کی پھولی

    ایام مقرری گزر کر

    پیدا ہوئی اک حسینہ دختر

    صورت میں پری، جمال میں حور

    فلفل سی وہ ماں تھی پیش کافور

    مشہور ہوئی وہ ماہ پارہ

    لوگ آنے لگے پے نظارہ

    وہ منتظر ظہور نیرنگ

    یعنی تاج الملوک دل تنگ

    چرچا سن کر، چلا کہ دیکھوں

    دیکھا، تو کھبا نظر میں افسوں

    جانا کہ پری، وہ سوختہ تن

    سانچے میں سے ڈھل کے نکلی کندن

    چہرے سے پری کا ڈھنگ پایا

    اندر کا وہ قول یاد آیا

    دہقاں سے کہا کہ سیم و زر لے

    دولت صدقے، یہ سیم بردے

    دہقاں نے کہا کہ میرے صاحب!

    یہ باتیں تمھیں نہیں مناسب

    دختر جو پسند مہ لقا ہے

    بکتی نہیں، لعل بے بہا ہے

    پھل سے نہیں پیڑ کو سروکار

    جب تک کہ ہو کام کا نہیں بار

    سمجھا وہ کہ میوہ ہے ابھی خام

    عورت ہو جواں، تو نکلے کچھ کام

    یہ سوچ کے، گھر پھرا وہ دل سوز

    آیا کیا اس کو دیکھنے روز

    دن دن اسے ہو گیا قیامت

    بوٹا سی بڑھی وہ سر و قامت

    چلتی، تو زمیں میں سرو گڑتے

    باتیں کرتی، تو پھول جھڑتے

    خواہاں ہوئے ہم وقار اس کے

    دہقاں ہوئے خواستگاری اس کے

    کہہ بے سر و بر گی اپنی دہقاں

    بولا کہ ہے رب کے ہاتھ ساماں

    شہ زادے نے ایک دن پھر آ کر

    شادی کو کہا، حیا اٹھا کر

    صحبت ہے برابری میں زیبا

    نسبت ہے برادری میں زیبا

    دہقاں زادی وہ، بے محابا

    بول اٹھی کس آن سے کہ بابا!

    خواہاں سے مرے نہ ہو تو نا خوش

    ہے دختر رز نصیب مے کش

    مطلب کو سمجھ کے گھر پھرا وہ

    وقت آنے کا منتظر رہا وہ

    یاں تو یہ حساب کرتا تھا سن

    واں لوگ ارم کے گنتے تھے دن

    گزرا بارے جو عہد سختی

    آئے ایام نیک بختی

    دختر وہ، پکڑ کے باپ کا ہاتھ

    پچھواڑے مکاں کے لے گئی ساتھ

    واں تھا کسی وقت کا دفینہ

    دکھلا کے کہا، یہ ہے خزینہ

    کہنا نہ کسی سے میں پری ہوں

    تو کیا جانے، بکاولی ہوں

    ایک آدمی زاد کی بدولت

    لائی ترے گھر ہے مجھ کو قسمت

    ناگاہ سمن پری لیے تخت

    وارد ہوئی اور کہا کہ لے رخت

    رخت اس نے سج کے تخت اڑایا

    دامان نظر سے منہ چھپایا

    چتراوت کا محل جدھر تھا

    سوتا جس رخ وہ سیم بر تھا

    واں جا کے ہوئی وہ نور آگیں

    پروانے کی اپنے شمع بالیں

    بیدار کیا وہ ماہ پیکر

    جاگا، تو تھا آفتاب سر پر

    اٹھا جو وہ کہہ کے آؤ جانی!

    آواز سے چونک اٹھی وہ رانی

    منہ دیکھتے ہی بکاولی کا

    سایہ اسے ہو گیا پری کا

    بولی وہ بکاولی سیانی

    ہے سوت مری یہی وہ رانی؟

    بولا وہ کہ لونڈی ہے تمہاری

    یہ کہہ کے، اسے کہا کہ پیاری!

    چوٹی ہے میری ہاتھ ان کے

    چل آ، کہ چلا میں ساتھ ان کے

    یہ بات بکاولی کو بھائی

    شہ زادے کے ساتھ اسے بھی لائی

    اڑتے ہی وہ تخت سحر آگیں

    کیا دور تھا گلشن نگاریں

    مدت کے جو بعد گھر میں آئے

    کھوئے ہوئے جیسے سب نے پائے

    فردوس کی بیسوا وہ دلبر

    محمودہ دیونی کی دختر

    چتراوت چترسین کی جان

    آرام ارم بکاولی جان

    ان چاروں میں ایک مست بادہ

    پور کا بادشاہ زادہ

    پانچوں سر پنچۂ وفا تھے

    یا خمۂ مطلع صفا تھے

    ہوتے ہی حواس خمسہ مجموع

    آمد ہوئی اقربا کی مسموع

    فیروز شہ و جمیلہ دانا

    حسن آرا اور روح افزا

    پورب کا وہ شاہ و شاہ بانو

    اطراف سے مملکت کے میں، تو

    جو جو آیا، بلا تکلف

    اک قافلے سے ملا وہ یوسف

    سلطانوں کی قدر دانیاں کیں

    مہمانوں کی میز بانیاں کیں

    چندے رہا مجمع بد و نیک

    رخصت ہوئے رفتہ رفتہ ایک ایک

    روح افزا سے بکاولی کو

    الفت تھی، رو کی دل لگی کو

    رکنا، ہوا اس پری کا مشکل

    یہ دل لگی، اب لگائے گی دل

    عاشق ہونا بہرام وزیر زادۂ تاج الملوک کا روح افزا پری پر

    اور شادی ہونی بکاولی کی سعی سے اور کام یاب رہنا

    جب ختم پہ داستان یہ آئی

    یوں شاخ قلم شگوفہ لائی

    روح افزا کو بکاولی نے

    رو کا جو یہاں کئی مہینے

    اک شب کہوہ زلف مہ رخاں تھی

    یا آتش مہر کا دخاں تھی

    وہ مست مے فانہ گوئی

    مہتابی پہ چاندنی میں سوئی

    سلطاں کا وزیر زادہ بہرام

    گل گشت چمن میں تھا گل اندام

    لٹکی دیکھی پری کی چوٹی

    ناگن سی اس کے دل پہ لوٹی

    کھٹکے سے مگر بکاولی کے

    بھاگا سایے سے اس پری کے

    جب کاکل شب سے روے خورشید

    تاباں ہوا بہر چشم امید

    دیکھا تو ماہ نو کا تھا برج

    رکھتا تھا دریگانہ وہ درج

    بے تابی نے کچھ قرار پایا

    مجبوری میں اختیار پایا

    مہتابی پہ چاندنی جب آئی

    سایے نے پری پہ کی چڑھائی

    اس فتنے کی خواب گہ تک آیا

    مانند سہا وہ مہ تک آیا

    تجویز رہا تھا گھات گوں کی

    ناگاہ وہ مست خواب چونکی

    آغوش کی موج سے وہ مضطر

    مچھلی سی نکل گئی تڑپ کر

    پیچھا کیے صحن تک وہ آیا

    مہتاب کے پیچھے جیسے سایا

    ملتی اسے خاک وہ ہوائی

    انساں کو پری نہ ہاتھ آئی

    ہوتے ہی سحر، وہ روح افزا

    رخصت ہوئی گھر کو، رکھ کے پردا

    معشوق سے رہ گیا جو ناکام

    تھا غم سے گنار گور بہرام

    تنہا وہ سمن پری تھی اک روز

    قدموں پہ گرا، کہا بہ صد سوز

    دل سے ہوں فداے روح افزا

    مرتا ہوں براے روح افزا

    بولی وہ: ارے بشر سڑی ہے!

    روح افزا کیا بکاولی ہے!

    شہ زادے کے ڈھنگ پر نہ تو چل

    ہمتاے فلک نہ ہو گا بادل

    بولا وہ کہ مجھ سے اس سے ہے راہ

    شبنم کی ہے آفتاب کو چاہ

    واقف تھی پری کے دیس سے وہ

    لے پہنچی زنانے بھیس سے وہ

    فردوس میں مالن ایک تھی حور

    گل چہرہ پری بنفشہ مشہور

    پوشیدہ گھر اس کے لائی اس کو

    منہ بولی بہن بنائی اس کو

    فردوس کی سیر کے بہانے

    چھوڑا منزل پہ رہ نما نے

    روح افزا کے لیے بنفشہ

    گل دستہ بناتی تھی ہمیشہ

    حاجت کو ذرا گئی جو باہر

    بہرام نے پشت آئنہ پر

    تحریر کیا کہ بے مروت!

    آئینہ ہے تجھ پہ میری صورت

    افسوس! مجھے تو آرزو ہو

    اور آئنہ تیرے روبہ رو ہو

    لیکن تو زبس کے خود نما ہے

    خود بینی سے جو کرے، بجا ہے

    یہ لکھ کے ہٹا، تو مالن آئی

    گل دستہ پری کے پاس لائی

    روح افزا کا سنگھار کر کے

    محو اس کی ہوئی جو پیار کر کے

    الٹا اسے آئنہ دکھایا

    خط سمجھی وہ، کاکلوں کا سایہ

    مضموں جو پڑھا، پری تھی دانا

    نقش عمل نگار جانا

    مشاط کو دیکھ کر اکیلی

    بولی کہ بتا تو یہ پہیلی

    سوچی، تو نہ بوجھی وہ، کیا: کل

    کہ دوں گی، یہ کہہ کے آئی بے کل

    بہرام اس سوچ کو سمجھ کر

    بولا: کیا ہے؟ کہا الجھ کر

    وہ جانتا تھا، نہ اس کو سوجھی

    بولا: لو بات کیا ہے، بوجھی

    ہاتھ آ کے نہ پائے جو وہ مجذوب

    ہو کر نہ دکھائی دے ہو محبوب

    وہ سن کے، جو دوسرے دن آئی

    تقریر سنی ہوئی سنائی

    سمجھی وہ کہ پوچھ آئی ہے یہ

    پوچھا: کس نے بتائی ہے یہ؟

    بولی وہ: مجھے تو ہاں نہ سوجھی

    منہ بولی بہن نے میری بوجھی

    روح افزا نے کہا کہ ناداں!

    ہمرہ اسے کیوں نہ لائی تو یاں

    بولی وہ؛ ابھی چلی میں لائی

    جا کر طلبی اسے سنائی

    اس مژدے کا منتظر ہی تھا وہ

    ساتھ اس کے زنانے میں گیا وہ

    امرد کا لباس تھا زنانا

    دھوکا کچھ کھا گئی وہ دانا

    پوچھا: کہو نام کیا؟ کہا: ننگ

    پوچھا کہ نشاں؟ کہا: دل تنگ

    یہ سن کے، اشارے سے بیٹھایا

    بادام بنفشہ کو دکھایا

    وہ جالی، کہا: یہ پردہ پوشی!

    گندم کے بہانے جو فروشی!

    بہرام ہے تو ارے وہی چور!

    رہ تجھ کو بناؤں سحر سے گور

    بدیمن سمجھ کے گور کا نام

    پنجرہ اک لائی وہ گل اندام

    طوق اس کو طلسم کا پنھایا

    قمری اسے سرو نے بنایا

    دن بھر تو وہ فاختہ پڑھاتی

    شب کو اسے آدمی بناتی

    غماز تھی اک خواص اس کی

    دم ساز تھی وقت خاص اس کی

    اک دن پنجرہ اڑا کے لائی

    حسن آرا کو وہ کل سجھائی

    کھولا جو وہ بند سحر بنیاد

    دیکھا، تو مجسم آدمی زاد

    گستاخ جو اس بشر کو پایا

    غصہ غضب اس پری کو آیا

    لوگوں سے کہا: ہٹاؤ اس کو

    آتش کدے میں جلاؤ اس کو

    لوگ اس کو لے چلے جلانے

    تقدیر کے سنیے کار خانے

    شہ زادہ، بکاولی کے ہمراہ

    گزرا اسی راستے سے ناگاہ

    دیکھا تو وزیر زادہ بہرام

    بوتے میں تھا شکل نقرۂ خام

    جلنے سے پناہ دے کے اس کو

    فردوس میں آئے لے کے اس کو

    زندہ اسے پا کے حسن آرا

    بولی کہ یہ چور ہے ہمارا

    قابل ہے جلانے کے یہ فاسق

    روح افزا کا ہوا ہے عاشق!

    بولی وہ بکاولی کہ قربان

    یہ کون سی فہم ہے چچی جان!

    پیاری کا جو اپنی ہووے پیارا

    کیوں کر ستم اس پہ ہو گوارا

    حسن آرا نے کہا: بجا ہے!

    تم کیوں نہ کہو، کہ خود کیا ہے

    بولی وہ کہ پھر عبث ہے انکار

    تب عیب نہ تھا، تو اب ہے کیا عار

    کیا کہتی وہ، دم بہ خود سنا کی

    سوچی، سمجھی رضا خدا کی

    مرسوم تھے جس طرح کے انداز

    شادی کا خوشی خوشی کیا ساز

    دو ساز طرب ملے خوش آہنگ

    دو راز ادب کھلے بہ صد ننگ

    شادی جو ہوئی، تو غم ہوا دور

    فردوس سے گھر کو آئی وہ حور

    گلزار جو اہریں میں آکر

    آباد ہوئی وہ یاسمن بر

    حاصل ہوئی ان گلوں کو بے خار

    سیر شب زلف و صبح رخسار

    جس طرح انہیں بہم ملایا

    بچھڑے ہوئے سب ملیں خدایا!

    تایخ اختتام تصنیف از مصنف:

    ایں نام کہ خامہ کرد بنیاد

    گلزار نسیم نام بنہاد

    بشنید و نوید ہا تفے داد

    توقیع قبول روزیش باد

    ۱۲۵۴ھ***

    مأخذ:

    Masnavi Gulzar-e-Naseem (Pg. ebook-23 page-27)

    • مصنف: پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی
      • اشاعت: 1965
      • ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1941

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے