Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دعوت ولیمہ

نشتر امروہوی

دعوت ولیمہ

نشتر امروہوی

MORE BYنشتر امروہوی

    اک روز ہم بھی دعوت اڑانے چلے گئے

    وعدہ جو کر لیا تھا نبھانے گئے چلے

    بیگم کی بات ہم نہیں مانے چلے گئے

    اور فیملی کے ساتھ میں کھانے چلے گئے

    ٹائم کے ہیر پھیر نے سب کو سکھا دیا

    کھانے کے انتظار نے ہم کو پکا دیا

    میزوں پہ تھی سجی ہوئی ہر چیز بر محل

    خوشبو بڑھا رہی تھی بہت بھوک کا عمل

    بریانی قورمہ وہیں روٹی اغل بغل

    چٹنی اچار رائتا اور چاٹ کے تھے پھل

    اسٹال میں سجی ہوئی ہر شے عظیم تھی

    کافی تھی کولڈ ڈرنک تھی آئس کریم تھی

    کھانا شروع کرنے کا اعلان جب ہوا

    ہر سمت جیسے حشر کا عالم ہوا بپا

    کیسا سلاد کس کا اچار اور رائتا

    اک شخص نے پلیٹ میں ڈونگا پلٹ لیا

    ہم یوں بھٹک رہے تھے کہ جیسے حقیر ہوں

    خالی پلیٹ ساتھ تھی جیسے فقیر ہوں

    بیگم سے تھا بلند کوئی قد میں پست تھا

    فرہاد کا چچا کوئی مجنوں پرست تھا

    جوش شباب میں کوئی مغرور و مست تھا

    اتنا ضعیف کوئی کہ لاٹھی بدست تھا

    بھگدڑ میں کون دیتا بھلا پھر کسی کا ساتھ

    ڈونگا کسی کے ہاتھ تھا چمچہ کسی کے ہاتھ

    کچھ عورتوں کے ساتھ میں بچے تھے چلبلے

    کس باپ کے سپوت تھے کس گود کے پلے

    نو دس برس کے سن میں یہ ہمت یہ ولولے

    کس کی مجال ان سے کوئی ڈونگا چھین لے

    مرغے کی ٹانگ پھینک دی آدھی چچوڑ کر

    بریانی پر جھپٹ پڑے روٹی کو چھوڑ کر

    کوئی تو تھا کباب کے پیچھے پڑا ہوا

    مرغے کی ٹانگ لینے پہ کوئی اڑا ہوا

    ڈش کے قریب کوئی تھا ایسے کھڑا ہوا

    کھمبے کی طرح جیسے زمیں میں گڑھا ہوا

    بریانی کی طلب میں بھٹکتا ہوا کوئی

    بوٹی بنا چبائے سٹکتا ہوا کوئی

    آئے کباب سیخ تو ہتھیا گیا کوئی

    پلے پڑا نہ کچھ بھی تو جھلا گیا کوئی

    چٹنی سمجھ کے سونٹھ وہاں کھا گیا کوئی

    اور رائتے کو کھیر میں اوندھا گیا کوئی

    اس ہڑبڑی میں ہو گئی کچھ ایسی گڑبڑی

    پوری پلیٹ کھیر کی دولہا پہ جا پڑی

    پہلے تو ہم بھٹکتے رہے بس ادھر ادھر

    شرم و حیا کو رکھ دیا پھر ہم نے طاق پر

    ٹیبل پہ پہنچے بھیڑ کو جب چیر پھاڑ کر

    ڈونگا اٹھا کے ڈالی جو اس پر ذرا نظر

    اس میں نہ شوربا نہ ہی بوٹی دکھائی دی

    خالی پلیٹ بھوک میں روٹی دکھائی دی

    پلے جب اپنے کچھ نہ پڑا بھاگ دوڑ کر

    حسرت بھری نگاہ سے کھانے کو چھوڑ کر

    ہم نے سلاد کھا لیا لیمو نچوڑ کر

    ویٹر سے پانی مانگا جو پھر ہاتھ جوڑ کر

    غصے سے پانی پھر گیا اس وقت پیاس پر

    چاروں طرف سنی تھی لپ اسٹک گلاس پر

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے