دعوت ولیمہ
اک روز ہم بھی دعوت اڑانے چلے گئے
وعدہ جو کر لیا تھا نبھانے گئے چلے
بیگم کی بات ہم نہیں مانے چلے گئے
اور فیملی کے ساتھ میں کھانے چلے گئے
ٹائم کے ہیر پھیر نے سب کو سکھا دیا
کھانے کے انتظار نے ہم کو پکا دیا
میزوں پہ تھی سجی ہوئی ہر چیز بر محل
خوشبو بڑھا رہی تھی بہت بھوک کا عمل
بریانی قورمہ وہیں روٹی اغل بغل
چٹنی اچار رائتا اور چاٹ کے تھے پھل
اسٹال میں سجی ہوئی ہر شے عظیم تھی
کافی تھی کولڈ ڈرنک تھی آئس کریم تھی
کھانا شروع کرنے کا اعلان جب ہوا
ہر سمت جیسے حشر کا عالم ہوا بپا
کیسا سلاد کس کا اچار اور رائتا
اک شخص نے پلیٹ میں ڈونگا پلٹ لیا
ہم یوں بھٹک رہے تھے کہ جیسے حقیر ہوں
خالی پلیٹ ساتھ تھی جیسے فقیر ہوں
بیگم سے تھا بلند کوئی قد میں پست تھا
فرہاد کا چچا کوئی مجنوں پرست تھا
جوش شباب میں کوئی مغرور و مست تھا
اتنا ضعیف کوئی کہ لاٹھی بدست تھا
بھگدڑ میں کون دیتا بھلا پھر کسی کا ساتھ
ڈونگا کسی کے ہاتھ تھا چمچہ کسی کے ہاتھ
کچھ عورتوں کے ساتھ میں بچے تھے چلبلے
کس باپ کے سپوت تھے کس گود کے پلے
نو دس برس کے سن میں یہ ہمت یہ ولولے
کس کی مجال ان سے کوئی ڈونگا چھین لے
مرغے کی ٹانگ پھینک دی آدھی چچوڑ کر
بریانی پر جھپٹ پڑے روٹی کو چھوڑ کر
کوئی تو تھا کباب کے پیچھے پڑا ہوا
مرغے کی ٹانگ لینے پہ کوئی اڑا ہوا
ڈش کے قریب کوئی تھا ایسے کھڑا ہوا
کھمبے کی طرح جیسے زمیں میں گڑھا ہوا
بریانی کی طلب میں بھٹکتا ہوا کوئی
بوٹی بنا چبائے سٹکتا ہوا کوئی
آئے کباب سیخ تو ہتھیا گیا کوئی
پلے پڑا نہ کچھ بھی تو جھلا گیا کوئی
چٹنی سمجھ کے سونٹھ وہاں کھا گیا کوئی
اور رائتے کو کھیر میں اوندھا گیا کوئی
اس ہڑبڑی میں ہو گئی کچھ ایسی گڑبڑی
پوری پلیٹ کھیر کی دولہا پہ جا پڑی
پہلے تو ہم بھٹکتے رہے بس ادھر ادھر
شرم و حیا کو رکھ دیا پھر ہم نے طاق پر
ٹیبل پہ پہنچے بھیڑ کو جب چیر پھاڑ کر
ڈونگا اٹھا کے ڈالی جو اس پر ذرا نظر
اس میں نہ شوربا نہ ہی بوٹی دکھائی دی
خالی پلیٹ بھوک میں روٹی دکھائی دی
پلے جب اپنے کچھ نہ پڑا بھاگ دوڑ کر
حسرت بھری نگاہ سے کھانے کو چھوڑ کر
ہم نے سلاد کھا لیا لیمو نچوڑ کر
ویٹر سے پانی مانگا جو پھر ہاتھ جوڑ کر
غصے سے پانی پھر گیا اس وقت پیاس پر
چاروں طرف سنی تھی لپ اسٹک گلاس پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.