ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو
ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو
ویسا ہے پھول فرض کیا حور کیوں نہ ہو
کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے نے اسے
ایسا جو پاوے آپ کو مغرور کیوں نہ ہو
حق بر طرف ہے منکر دیدار یار کے
جو شخص ہووے آنکھوں سے معذور کیوں نہ ہو
گیسوئے مشک بو کو اسے ضد ہے کھولنا
پھر زخم دل فگاروں کا ناسور کیوں نہ ہو
صورت تو تیری صفحۂ خاطر پہ نقش ہے
ظاہر میں اب ہزار تو مستور کیوں نہ ہو
صافیٔ شست سے ہے غرض مشق تیر سے
سینہ کسو کا خانۂ زنبور کیوں نہ ہو
مجنوں جو دشت گرد تھا ہم شہر گرد ہیں
آوارگی ہماری بھی مذکور کیوں نہ ہو
تلوار کھینچتا ہے وہ اکثر نشے کے بیچ
زخمی جو اس کے ہاتھ کا ہو چور کیوں نہ ہو
خالی نہیں بغل کوئی دیوان سے مرے
افسانہ عشق کا ہے یہ مشہور کیوں نہ ہو
مجھ کو تو یہ قبول ہوا عشق میں کہ میرؔ
پاس اس کے جب گیا تو کہا دور کیوں نہ ہو
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0398
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.