اٹھکھیلیوں سے چلتے طفلی میں جان مارے
اٹھکھیلیوں سے چلتے طفلی میں جان مارے
نام خدا ہوا ہے اب وہ جوان بارے
اپنی نیاز تم سے اب تک بتاں وہی ہے
تم ہو خدائے باطل ہم بندے ہیں تمہارے
ٹھہرے ہیں ہم تو مجرم ٹک پیار کر کے تم کو
تم سے بھی کوئی پوچھے تم کیوں ہوئے پیارے
کل میں جو سیر میں تھا کیا پھول پھول بیٹھی
بلبل لیے ہے گویا گلزار سب اجارے
کرتا ہے ابر نیساں پر در دہن صدف کا
منہ جو کوئی پسارے ایسے کنے پسارے
اے کاش غور سے وہ دیکھے کبھو ٹک آکر
سینے کے زخم اب تو غائر ہوئے ہیں سارے
چپکا چلا گیا میں آزردہ دل چمن سے
کس کو دماغ اتنا بلبل کو جو پکارے
میدان عشق میں سے چڑھ گھوڑے کون نکلا
مارے گئے سپاہی جتنے ہوئے اتارے
جو مر رہے ہیں اس پر ان کا نہیں ٹھکانا
کیا جانیے کہاں وے پھرتے ہیں مارے مارے
کیا برچھیاں چلائیں آہوں نے نیم شب کی
رخنے ہیں آسماں میں سارے نہیں ستارے
ہوتی ہے صبح جو یاں ہے شام سے بھی بد تر
کیا کہیے میرؔ خوبی ایام کی ہمارے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1760
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.