گل کیا جسے کہیں کہ گلے کا تو ہار کر
گل کیا جسے کہیں کہ گلے کا تو ہار کر
ہم پھینک دیں اسے ترے منہ پر نثار کر
آغوشیں جیسے موجیں الٰہی کشادہ ہیں
دریائے حسن اس کا کہیں ہم کنار کر
یاں چلتے دیر کچھ نہیں لگتی ہے میری جاں
رخت سفر کو اپنے شتابی سے بار کر
مختار رونے ہنسنے میں تجھ کو اگر کریں
تو اختیار گریۂ بے اختیار کر
مشق ستم ہوئی ہے بہت صاف یار کی
پشتے لگائے ان نے جوانوں کو مار کر
صیادی میں علوئے تقدس تو اس کا دیکھ
روح القدس کو مار رکھا ہے شکار کر
بہنے لگی ہے تیغ کی جدول تو تیری تیز
دشمن کا کام وار میں پہلے ہی پار کر
میں بے قرار خاک میں کب تک ملا کروں
کچھ ملنے کا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر
میں رفتہ میرؔ مجلس تصویر کا گیا
تو بیٹھا میرا حشر تک اب انتظار کر
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 6, Ghazal No- 1829
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.