جب سے ستارہ صبح کا نکلا تب سے آنسو جھمکا ہے
جب سے ستارہ صبح کا نکلا تب سے آنسو جھمکا ہے
دل تڑپا جو اس مہ رو بن سر کو ہمارے دھمکا ہے
آمد و رفت دم کے اوپر ہم نے بنائے زیست رکھی
دم سو ہوا ہے آوے نہ آوے کس کو بھروسا دم کا ہے
گہہ صوفی چل میخانے میں لطف نہیں اب مسجد میں
ابر ہے باراں باؤ ہے نرمک رنگ بدن میں جھمکا ہے
کیا امید رہائی رکھے ہم سا رفتہ وارفتہ
دل اپنا تو زنجیری اس زلف خم در خم کا ہے
دل کی نہیں بیماری ایسی جس میں ہو امید بہی
کیا سنبھلے گا میرؔ ستم کش وہ تو مارا غم کا ہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1520
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.