مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا
مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا
پر بعد نماز اٹھ کر مے خانہ چلا جاتا
بازار میں ہو جانا اس مہ کا تماشا تھا
یوسف بھی جو واں ہوتا تو اس پہ بکا جاتا
دیکھا نہ ادھر ورنہ آتا نہ نظر پھر میں
جی مفت مرا جاتا اس شوخ کا کیا جاتا
شب آہ شرر افشاں ہونٹوں سے پھری میرے
سر کھینچتا یہ شعلہ تو مجھ کو جلا جاتا
کیا شوق کی باتوں کی تحریر ہوئی مشکل
تھے جمع قلم کاغذ پر کچھ نہ لکھا جاتا
آنکھیں مری کھلتیں تو اس چہرے ہی پر پڑتیں
کیا ہوتا یکایک وہ سر پر مرے آ جاتا
سبزے کا ہوا روکش خط رخ جاناں کے
جو ہاتھ مرے چڑھتا تو پان کو کھا جاتا
ہے شوق سیہ رو سے بدنامی و رسوائی
کیوں کام بگڑ جاتا جو صبر کیا جاتا
تھا میرؔ بھی دیوانہ پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1319
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.