ٹک پاس آ کے کیسے صرفے سے ہیں کشیدہ
ٹک پاس آ کے کیسے صرفے سے ہیں کشیدہ
گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ
اب خاک تو ہماری سب سبز ہو چلی ہے
کب منہ ادھر کرے گا وہ آہوئے رمیدہ
یوسف سے کوئی کیونکر اس ماہ کو ملاوے
ہے فرق رات دن کا از دیدہ تا شنیدہ
بندے کے درد دل کو کوئی نہیں پہنچتا
ہر ایک بے حقیقت یاں ہے خدا رسیدہ
کیا وسوسہ ہے مجھ کو عزت سے جینے کا یاں
نکلا نہ میرے دل سے یہ خار نا خلیدہ
ہم کاڑھ کر جگر بھی آگے تمہارے رکھا
پھر یا نصیب اس پر تم جو ہوئے کبیدہ
سائے سے اپنے وحشت ہم کو رہی ہمیشہ
جوں آفتاب ہم بھی کیسے رہے جریدہ
منصور کی نظر تھی جو دار کی طرف سو
پھل وہ درخت لایا آخر سر بریدہ
ذوق سخن ہوا ہے اب تو بہت ہمیں بھی
لکھ لیں گے میرؔ جی کے کچھ شعر چیدہ چیدہ
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0939
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.