اس چہرے کی خوبی سے عبث گل کو جتایا
اس چہرے کی خوبی سے عبث گل کو جتایا
یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا
وہ آئنہ رخسار دم باز پس آیا
جب حس نہ رہا ہم کو تو دیدار دکھایا
کچھ ماہ میں اس میں نہ تفاوت ہوا ظاہر
سو بار نکالا اسے اور اس کو چھپایا
اک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گزری
کوچے میں ترے آن کے لوہو میں نہایا
سمجھا تو مجھے مرگ کے نزدیک پس از دیر
رحمت ہے مرے یار بہت دور سے آیا
یہ باغ رہا ہم سے ولے جا نہ سکے ہم
بے بال و پری نے بھی ہمیں خوب اڑایا
میں صید رمیدہ ہوں بیابان جنوں کا
رہتا ہے مرا موجب وحشت مرا سایا
یا قافلہ در قافلہ ان رستوں میں تھے لوگ
یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا
رو میں نے رکھا ہے در ترسا بچگاں پر
رکھیو تو مری شرم بڑھاپے میں خدایا
ٹالا نہیں کچھ مجھ کو پتنگ آج اڑاتے
بہتوں کے تئیں باؤ کا رخ ان نے بتایا
ایسے بت بے مہر سے ملتا ہے کوئی بھی
دل میرؔ کو بھاری تھا جو پتھر سے لگایا
مأخذ:
MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0106
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.