یاد جب آتی ہے وہ زلف سیاہ
یاد جب آتی ہے وہ زلف سیاہ
سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ
کھل گیا منہ اب تو اس محجوب کا
کچھ سخن کی بھی نکل آوے گی راہ
شرم کرنی تھی مرا سر کاٹ کر
سو تو ان نے اور ٹیڑھی کی کلاہ
یار کا وہ ناز اپنا یہ نیاز
دیکھیے ہوتا ہے کیونکر یوں نباہ
دین میں اس کافر بے رحم کے
اجر اک رکھتا ہے خون بے گناہ
پتھروں سے سینہ کوبی میں نے کی
دل کے ماتم میں مری چھاتی سراہ
مول لے چک مجھ کو آنکھیں موند کر
دیکھ تو قیمت ہے میری اک نگاہ
لذت دنیا سے کیا بہرہ ہمیں
پاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ
روٹھ کر کیا آپ سے ملنے میں لطف
ہووے وہ بھی تو کبھو ٹک عذر خواہ
ضبط بہتیرا ہی کرتے ہیں ولے
آہ اک منہ سے نکل جاتی ہے گاہ
اس کے رو کے رفتہ ہی آئے ہیں یاں
آج سے تو کچھ نہیں یہ جی کی چاہ
دیکھ رہتے دھوکے اس رخسار کے
دایہ منہ دھوتے جو کہتی ماہ ماہ
شیخ تو نے خوب سمجھا میرؔ کو
واہ وا اے بے حقیقت واہ واہ
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0936
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.