یہ رفتگی بھی ہوتی ہے جی ہی چلا گیا
یہ رفتگی بھی ہوتی ہے جی ہی چلا گیا
کل حال میرؔ دیکھ کے غش مجھ کو آ گیا
کیا کہیے ایک عمر میں وے لب ہلے تھے کچھ
سو بات پان کھاتے ہوئے وہ چبا گیا
ثابت ہے اس کے پہلو سے پہنچے ہے ہم کو رنج
دیکھا نہ درد دل کے کہے سر جھکا گیا
نالاں ہے عندلیب گل آشفتہ رفتہ سرو
ٹک بیٹھ کر چمن میں وہ فتنہ اٹھا گیا
پڑھتا تھا میں تو سبحہ لیے ہاتھ میں درود
صلواتیں مجھ کو آ کے وہ ناحق سنا گیا
رکھنا نشان قبر کا میری نہ خوش کیا
آیا سو اور خاک میں مجھ کو ملا گیا
منصف ہو تو ہی شیخ کہ اس مست ناز بن
ہم آپ سے بھلا گئے تجھ سے رہا گیا
ہرگز بجھی نہ سر سے لگی آہ عشق میں
مانند شمع داغ ہی سب ہم کو کھا گیا
کیوں میں کہا کہ ہنس کے نمک زخم پر چھڑک
بے لطف اس کے ہونے میں سارا مزہ گیا
آنسو تو ڈر سے پی گئے لیکن وہ قطرہ آب
اک آگ تن بدن میں ہمارے لگا گیا
وقت اخیر کیا یہ ادا تھی کہ غش سے میں
جب آنکھ کھولی بالوں میں منہ کو چھپا گیا
کیا پوچھتے ہو داغ کیا مرگ میرؔ نے
مر کر وہ سینہ سوختہ چھاتی جلا گیا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0722
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.