ویران کوکھ
دن بانجھ ہو چکا ہے
تاریکی منہ کھولے سامنے کھڑی ہے
آنسوؤں کی غذا لینے کو
وہ تو گزارا کر سکتی ہے لیکن
اس کے پیٹ میں محرومیوں کا بچہ
بھوک سے بلبلا رہا ہے
وہ وحشت کے آگے کاسہ لیے
پر امید کھڑی ہے کہ کوئی
سلگتی چاہت کوئی کسک اٹھے
اسے اب بھی وہی اکا دکا
رومانوی یادیں یاد ہیں
جب پہلی دفعہ
منڈیر پر کہنیاں ٹیکے لڑکے نے سلام نظر سے اسے مخاطب کیا تھا
اسے یاد ہے کہ اس نے اسے نظر انداز کر کے
جب دو قدم آگے بڑھائے تو اس نے کنکری پھینکی
وہ سمجھ گئی
کچی عمر کی لڑکیاں نہیں جانتیں کہ آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا
وہ لڑکی تیسری آنکھ کے ساحل پر کھڑی
چلمن ہٹانے کو بے قرار
ایک مغموم یاد کی تگ و دو کرتی
کوزہ گر بن جاتی ہے
جو چاک پر ایک یاد بن رہی ہے
مگر اسی دوران
اس لڑکے کے پیرہن سے نکلی ہوئی
مہک کی پہلی لپک
اسے اپنے حصار میں لے لیتی ہے
اضطرابی کیفیت میں
پسینے سے شرابور
وہ انگلیوں کے پوروں سے
پلکوں کے پسینے کے چند قطرے
اپنے حلق میں اتار دیتی ہے
زندگی کی حقیقت جان جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.