آخری صدی کے موڑ پر
نہ جانے زندگی کہاں ٹھہر گئی
یہ فصل انتظار بھی گزر گئی
کھلا تھا اک دریچۂ فلک نما
مگر ہوا کا راستہ بدل گیا
تمام آسماں ہوا دھواں دھواں
زمیں کا ایک ایک خواب جل گیا
کھلی ہوئی فضا میں راکھ بھر گئی
رفاقتوں کا ترجماں تھا جو لہو
وہ اس تماشا گر صدی میں بہہ گیا
وہ درد مشترک جو روشنی بنے
پگھل کے وقت کی ندی میں بہہ گیا
ندی بدن کی تہہ تلک اتر گئی
درخت اپنے پھل کو خود ہی کھا گئے
زمیں کی گود میں گرا نہ کوئی بھی
سحر کے دست ناز بے حنا رہے
دعا کی آنکھ ساری رات روئی بھی
نہ جانے وہ ہوائے شب کدھر گئی
ہوائے سرد کہہ رہی ہے دیر سے
چراغ جاں بجھا کے سو بھی جائیے
سفر میں کون پوچھتا ہے حال دل
اداسیوں کے بیچ کھو بھی جائیے
نگاہ میں جو صبح تھی وہ مر گئی
منزلوں کے خواب کا قصور کیا
پشت کی طرف جو قافلہ چلے
جو رہروان تیز پا بھٹک گئے
تو ہم بھی نامرادیاں اٹھا چلے
زمین اپنے زلزلوں سے ڈر گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.