آزادی
جی میں آتا ہے ہم بھی اڑانیں بھریں
آسانوں کی نیلی حدوں کو چھوئیں
ساگروں اور ندیوں میں غلطاں رہیں
شہر میں گاؤں میں جنگلوں میں پھریں
جی میں آتا ہے پھولوں کی رنگت
کھیتوں کا حسیں بانکپن
بانسری کی وہ تانیں
پپیہوں کے بول
رقص کرتی ہوئی ان فضاؤں کی مدہوشیاں
کارخانوں کی ہنگامہ آرائیاں
بھوکے پیاسے محلوں کی ویرانیاں
درد کی حسرتوں کی یہ تاریکیاں
ساری محرومیاں ساری مجبوریاں
اپنی ہستی میں بھر لیں
صبح دم نرم و تازہ بہاروں کے مسرور جھونکے
ہم کو تاریک اور غم زدہ رات کی
الجھنوں وحشتوں سے دلا دیں نجات
جن میں صدیوں سے ہے قید اپنی حیات
نئی و تازہ ہواؤں کے مسرور جھونکوں میں شکتی کہاں
کہ طوق و دار و رسن سے وہ آزاد کر دیں
اپنی آزادی ہم کو ہی پانی پڑے گی
جان کی دل کی بازی لگانی پڑے گی
ذمہ داری اہم ہے اٹھانی پڑے گی
آج دیوار زنداں ڈھانی پڑے گی
اپنی سانسوں کی گرمی سے
خوابوں کی لو سے
اپنے اشکوں کے زہراب سے
اپنے ارمانوں کی لمحہ لمحہ دہکتی ہوئی آگ سے
طوق کو اور زنجیر کو
قید کو اور جلاد کو
ظالموں کی کمیں گاہ کو
ان اندھیروں کے دہشت زدہ اونچے اونچے مناروں کو
پگھلا دیں ڈھا دیں چلو خاک کر دیں
ہر طرف ایک سرخی سی چھا جائے گی
زندگی اپنی منزل کو پا جائے گی
مأخذ:
(Pg. 45)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.