Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آزادی سے نیندوں تک

تنویر انجم

آزادی سے نیندوں تک

تنویر انجم

MORE BYتنویر انجم

    زندگی کی چٹانوں سے

    سزاؤں کا سمندر ٹکراتا ہے

    اور سفید چٹانیں سمندر کی کالی کر دینے والی طاقت سے بے خبر

    خوابوں کے غرور سے لبریز ہیں

    پانی چٹانوں میں راستے بناتا رہتا ہے

    اور ایسے میں کوئی نہیں جانتا

    ہم آزادی کے جوگ میں

    تنہائی کے کس کس جنگل میں بھٹکے ہیں

    آزادی کے لباس کو اپنا بدن سمجھ کر

    وحشی سناٹوں کی آمد سے بے خبر

    ہم کہاں کہاں بھٹکے ہیں

    اور جب لباس پھٹ جاتے ہیں

    ہم ان چھتڑوں کو اپنے بے لباس تنہائیوں میں

    یوں چھپا لیتے ہیں

    جیسے زندہ ماں کی آنکھیں مردہ بچے کی آخری دیدار کو چھپا لیتی ہیں

    تو ایسے میں سمندر سیلاب ہو جاتا ہے

    اور سفید چٹانیں

    سزاؤں میں دفن

    اپنے علاوہ سب کچھ بھول جانے پر مجبور ہو جاتی ہیں

    ہم سیلاب میں نہ بہے جانے کا دکھ لیے

    نیندوں تک آ جاتے ہیں

    اور ہم چٹانوں سے گزرنے والے پانی کے راستے بند نہیں کر سکتے تو

    ہنس دیتے ہیں

    اور نیندوں کی بھیک جمع کرتے کرتے

    وحشی سناٹوں کی آمد کے ہول میں

    ہم سونا بھول جاتے ہیں

    مأخذ:

    Andekhi Lahren(rekhta website) (Pg. 22)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے