زحمت کون و مکاں کھینچ رہا ہے کوئی
تیرگی وسعت افلاک سے مٹ جائے گی
عشق اس طرح چھپائے سے بھلا کیا چھپتا
میرے اشکوں میں کوئی ڈوب کے آج ابھرا ہے
میں نے دیکھا ہے کہیں آج حیا کا پیکر
کس کے اعجاز کرم کی یہاں سرگوشی ہے
کوئی دیوانہ سر راہ سنبھل جائے گا
مٹ رہا تھا جو اسے اس کی خبر ہی کب تھی
کوئی آ کر مری دنیا کو بدل جائے گا
کس سے کہہ دوں میں ان آنکھوں کی حسیں بات کہ اب
جاوداں ہونے کو یہ شعلۂ دل اٹھتا ہے
آج تو خلد علی گڑھ بھی ہے بدنام بہت
ہیر و رانجھا کی حکایات نے لب کھول دئے
نام اب افسر و انجم کے لئے جاتے ہیں
ہاں مگر کس سے ہوئی سوہنی مہیوال کی جیت
کون ہے جس سے مرا درد و غم ہجر مٹا
درمیاں آج کوئی آہنی دیوار نہیں
کوئی پردہ نہیں اب پردۂ ظلمات سے چاک
کاروان غم دل آج نہیں رک سکتا
کہکشاں اب مرے قدموں کی تمنائی ہے
اور ہم توڑ چکے عرش کے پندار کو بھی
آسماں اپنی بلندی پہ کرے ناز تو کیا
تیرگی وسعت افلاک سے مٹ جائے گی
زحمت کون و مکاں کھینچ رہا ہے کوئی
مأخذ:
لب و رخسار (Pg. 76)
- مصنف: انجم اعظمی
-
- ناشر: آرٹ اکیڈمی، علی گڑھ
- سن اشاعت: 1952
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.