اجنبی جزیرے پر
کیسے آ گئی ہوں میں
ایک پل کو سوئی تھی
آنکھ جب کھلی میری
اجنبی جزیرہ تھا
اجنبی جزیرے پر
اک عجب اداسی کی دھند چھائی رہتی ہے
خوف کا اندھیرا یوں سرسراتا پھرتا ہے
جیسے اس کی آنتوں میں موت چھپ کے بیٹھی ہے
اجنبی جزیرے پر
سرد آنکھ کو لے کر سرد جسم چلتے ہیں
خواب منجمد ہو کر
اپنی اپنی قبروں میں زندہ لیٹ جاتے ہیں
اجنبی جزیرے پر
فرد ڈرتے پھرتے ہیں
اجنبی جزیرے پر صرف خوف اگتا ہے
حرف اپنی حرمت سے خود ہی چھپتے پھرتے ہیں
اجنبی جزیرے پر
پاسباں نہیں ہوتے
خوف کی فراوانی قبر کے مقدر میں پھول لکھتی جاتی ہے
گو کہ اس جزیرے پر پھول اب نہیں کھلتے
اور خوشبوئیں اکثر موت کی غلامی میں طوق پہنے پھرتی ہیں
گیت کے سروں میں وہ نوحے گاتی پھرتی ہیں
اس عجب جزیرے پر
خوف کا یہ عالم ہے
قتل ہونے والے جسم
اپنے قاتلوں کے ساتھ بندگی سی کرتے ہیں
قتل کے تناظر میں سارے واقعے رکھ کر عاشقی سی کرتے ہیں
کیسی عاشقی ہے یہ
کیسا یہ جزیرہ ہے
پاسباں سے قاتل تک
کون چل کے آیا تھا
کس نے سرد آنکھوں سے منجمد شبیہوں کو نوچ کے نکالا تھا
کس نے حرف کا معنی اپنی کوکھ میں رکھے جھوٹ سے بدل ڈالا
کس نے پھول فکروں کو اذن موت کا دے کر خار زار بیچے ہیں
اجنبی جزیرے کے ساحلوں کی مٹی میں کتنے راز سوئے ہیں
اجنبی جزیرے پر صرف موت رہتی ہے
اور جو بھی رہتا ہے موت کی تجارت سے عاشقی سی کرتا ہے
اجنبی جزیرے پر
کیسے آ گئی ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.