Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علی محسن ایم بی اے، خالد بن ولید روڈ

حارث خلیق

علی محسن ایم بی اے، خالد بن ولید روڈ

حارث خلیق

MORE BYحارث خلیق

    علی محسن کے ماموں لٹ کے انبالہ سے جب لاہور آئے تھے

    کلام پاک علم اور سجدہ گاہیں ساتھ لائے تھے

    چنانچہ ان کے گھر میں مستقل دلدل بھی پلتا تھا

    ہمیشہ نو محرم کو علم گھر سے نکلتا تھا

    ہر عاشورے علی محسن بڑے ماموں کے گھر لاہور ہوتا تھا

    وہیں دو چار دن رک کر کراچی جب وہ آتا تھا

    تو بیڈن روڈ کے امرتسری حلوائی سے امی اور ابا کے لیے

    لڈو بھی لاتا تھا

    علی محسن کے ابا جی بڑے ہی پاک طینت تھے

    مگر ان کے پکھوڑوں اور کمر پر مستقل خارش سی رہتی تھی

    علی محسن کی امی کینہ پرور تھیں

    مگر بیٹا تو بیٹا تھا

    سو کہتی تھیں بہو جب گھر میں لاؤں گی

    پھٹیں گی تب تری آنکھیں

    چڑھاوا جب چڑھاؤں گی

    وہ اس پر کچھ نہ کہتا تھا

    وہ ان دونوں سے ویسے بات یوں بھی

    کم ہی کرتا تھا

    وہ امی اور ماموں کے لیے لاہور تو جاتا

    مگر دیں دار لوگوں سے

    اسے رغبت نہ ہوتی تھی

    اور ان سے بحث کرنے کی

    کبھی ہمت نہ ہوتی تھی

    علی محسن کے تینوں یار عمر، پرکاش اور صفدرؔ

    بڑے ہی بد عقیدہ تھے

    وہ چاروں ساتھ جب پرکاش کے اس فلیٹ میں ہوتے

    کلفٹن میں جہاں وہ شیام، رابرٹ اور نظر کے ساتھ رہتا تھا

    بڑے ہی کیف میں ہوتے

    وہ سارے مل کے جب پھر بیچ بروری کی چنیدہ لیموں والی ووڈکا

    کے جام بھرتے تھے

    تو اپنی شام کو خوش گپیوں بد فعلیوں کے نام کرتے تھے

    عمر، پرکاش ،صفدر اور علی محسن کا دفتر ایک ہی تھا

    اس لیے وہ پیتے پیتے مائرہ کو یاد کرتے تھے

    کئی سالوں سے وہ بھی ساتھ تھی ان کے

    وہ ہفتے بھر میں ہر دن اک نئی خوشبو لگاتی تھی

    بڑے دانتوں جھکے کاندھوں کی لڑکی

    جس کی سب باتیں نرالی تھیں

    اور آنکھیں کتنی کالی تھیں

    علی محسن کی آنکھیں تو نہیں باتیں نہایت خوب صورت تھیں

    وہ یاروں کو بتاتا تھا

    کہ وہ دفتر میں آئی سب نئی انٹرنز کے چکر میں رہتا ہے

    جو تھوڑے دن کو آتی تھیں

    قمیصیں جن کی اونچی تھیں

    یا جن کے چاک نیچے تھے

    جو بچھوے اور پازیبیں پہنتی تھیں

    جو خوش ہوں یا نہ ہوں

    خوش حال لگتی تھیں

    وہ باتوں کی انی سے جب کسی انٹرن کے دل میں

    بہت سے نت نئے اور پر مسرت خواب بوتا تھا

    اسے خود بھی ذرا دھیما سا اور مغلوب سا اک عشق ہوتا تھا

    وہ اپنے کام میں بھی مستعد تھا

    کمپنی نے اس کو گاڑی دی تھی جس میں ڈیک لگا تھا

    اور کسی انٹرن کو لے کر وہ اس پر گھومتا رہتا

    پٹھانے خان کو سنتا مسلسل جھومتا رہتا

    علی محسن پولس کے روکنے کے وقت سے پہلے

    کڑاہی کھا کے اور یاروں سے رخصت لے کے اپنے گھر پہنچتا تھا

    پہنچتے ہی وہ ٹی وی پر کسی چینل سے آتی

    انڈین پکچر لگاتا تھا

    مگر پھر بھول کر سب

    مائرہ کی خوشبوؤں میں ڈوب جاتا تھا

    RECITATIONS

    نعمان شوق

    نعمان شوق,

    نعمان شوق

    علی محسن ایم بی اے، خالد بن ولید روڈ نعمان شوق

    مأخذ:

    ishq ki taqweem men (Pg. 150)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے