Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عزم

MORE BYطارق قمر

    بوقت عصر اذاں گونجتی ہے صحرا میں

    نماز خود ہی مصلیٰ بچھانے آئی ہے

    بڑا عجیب تھا منظر

    عجیب رات تھی وہ

    ہوائیں سہمی ہوئی تھیں چراغ چپ چپ تھے

    ہر ایک سمت وہی بے کراں سی خاموشی

    فضا اداس

    وہی نیم جاں سی خاموشی

    سکوت شب میں بھی آہٹ تھی انقلابوں کی

    سجی تھی بزم وہاں آسماں جنابوں کی

    بہت سی باتیں تھیں اور کوئی بات تھی ہی نہیں

    پھر اس کے بعد کوئی رات

    رات تھی ہی نہیں

    وہ رات جب بھی کبھی یاد آنے لگتی ہے

    تو روشنی ہمیں رستہ دکھانے لگتی ہے

    اس ایک شب میں مرتب ہوا نصاب وفا

    لکھی گئی تھی اسی رات میں کتاب وفا

    اس ایک رات کو تحریر کوئی کیسے کرے

    خیال و فکر کو زنجیر کوئی کیسے کرے

    لہو کے خواب کی تعبیر کوئی کیسے کرے

    سفر تھا کیسا وہ کیسی مسافت شب تھی

    کوئی بتائے تو

    کیسی وہ ساعت شب تھی

    مطالبات شریعت بہت زیادہ تھے

    اور اس کے پاس فقط ایک شب کی مہلت تھی

    اس ایک شب میں اسے کتنے کام کرنے تھے

    اسے سکھانا تھا انساں کو بندگی کا شعور

    تلاوتوں کا قرینہ سخنوری کا شعور

    وہ ایک رات تھی ایسی

    کہ قدر و اسریٰ نے

    نظر جو اپنی جمائی تو پھر ہٹائی نہیں

    وہ ریگزار کے سینے پہ نسب اک خیمہ

    لہو سے صبر کی تاریخ لکھنے والا تھا

    بجھا بجھا سا کھڑا تھا وہ پاسبان‌ چراغ

    مگر درون میں اس کے بہت اجالا تھا

    وہ جانتا تھا وفادار ہیں سبھی ناصر

    وہ سر کٹائیں گے لیکن نہ ساتھ چھوڑیں گے

    چراغ خیمہ بجھانے کا یہ نہ تھا مقصد

    کہ اس کو یاور انصار کو پرکھنا تھا

    وہ روشنی میں انہیں لانا چاہتا تھا فقط

    سمجھ رہا تھا وہ قدرت کے ہر اشارے کو

    صدائیں دیتی رہی اس کو دولت دنیا

    کہاں وہ صبر کہاں جبر و شوکت دنیا

    مگر وہ ایک صدا

    آسماں سے آتی ہوئی

    بتا رہی تھی

    کہ کیا آسمان چاہتا ہے

    خدائے پاک کوئی امتحان چاہتا ہے

    اسی لئے کوئی صحرا کی سمت بڑھتا رہا

    لہو لہو کسی دریا کی سمت بڑھتا رہا

    وہ روشنی کی علامت

    وہ بانیان چراغ

    سمجھ رہا تھا بجھے گا یہ خاندان چراغ

    عجیب لوگ تھے وہ خاندان نور کے لوگ

    تھے سب کے ایک سے لہجے

    کلام یکساں تھے

    خلاف ظلم سبھی کے پیام یکساں تھے

    بہت ہی غور سے ہر چہرہ پڑھ رہے تھے حسین

    کہ آنے والا ہر اک لمحہ پڑھ رہے تھے حسین

    وہ ایک رات بھی دیکھو گزر ہی جاتی ہے

    سویرے معرکہ ہوتا ہے حق و باطل میں

    عجیب جوش ہے جذبہ ہے جاں نثاروں میں

    وقار تشنہ لبی کو گلے لگائے ہوئے

    گزر رہا ہے قبیلہ لہو کے دریا سے

    بوقت عصر اذاں گونجتی ہے صحرا میں

    نماز خود ہی مصلیٰ بچھانے آئی ہے

    سر حسین ادا کر رہا ہے سجدۂ شکر

    گلوئے خشک پہ خنجر کی دھار چلتی ہے

    پڑھا تھا جس نے کبھی

    کل من علیھا فان

    لہو سے اس نے لکھا

    لا الہ الا اللہ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے