چیخیں سن کر دوڑا آیا
تین برس کا تھا جب میں نے
پہلی بار یہ منظر دیکھا
گالی تھپڑ گھونسہ دھکا
کمرے میں اک مرد وحشی
عورت کے نزدیک کھڑا تھا
اور اسے بالوں سے اس کے
کھینچ رہا تھا
فرش پہ بیٹھی عورت روتی جاتی تھی
میں نے دیکھا
اور عورت کی جانب لپکا
مرد نے عورت کے بالوں کو
ہاتھوں سے آزاد کیا تھا
عورت میری جانب بھاگی
خوف سے آنکھوں میں آنسو تھے
دہشت سے پیشاب بھی نکلا
اس سے پہلے مرد ہماری جانب آتا
میں بھی اس عورت کو بچانے
روتے روتے
اس کے آگے کھڑا ہوا یوں
جیسے اک دیوار کھڑی ہو
لیکن یہ دیوار بہت ہی چھوٹی نکلی
کھینچ کے بالوں سے عورت کو
مرد نے کس کے ٹھوکر ماری
عورت کو دیوار نے روکا
اور پلٹا کے فرش پہ پٹخا
درد سے پاگل ہو گئی عورت
ماتھے سے فوارہ اچھلا
خون سے کپڑے لال ہوئے
ایسے میں ہاتھوں کو اٹھا کر
اس نے توپ کا آخری گولا ایسے داغا
اللہ تجھ کو غارت کر دے
ٹوٹیں تیرے ہاتھ اور پاؤں
اور تجھے بس موت آ جائے
خواب میں اکثر خوں کا اک
فوارہ چھوٹا کرتا ہے
اس عورت کی چیخیں اب بھی
میرا پیچھا کرتی ہیں
برسوں گزرے منظر بدلا
پرسوں میں اور میری بیوی
الجھ رہے تھے
ایسی کوئی بات نہیں تھی
بس اتنا تھا
میری دلیلیں اور تاویلیں
ایک اک کر کے
مجھ کو جھوٹی لگنے لگی تھیں
یک دم اک مرد وحشی نے
میرے اندر انگڑائی لی
ہاتھ ابھی بس اٹھنے کو تھا
یک دم اک عورت کی چیخیں
آہ و زاری خونی ماتھا
دھیان میں آیا
ہاتھ کا میں نے مکا تانا
اور جتنی طاقت تھی مجھ میں
اتنی ہی شدت سے اس کو
اپنے ہی نزدیک کھڑی
دیوار پہ کس کے مار دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.