اے خدائے دو جہاں اے مالک ہر دو سرا
کیا تجھے آدم کی لغزش کا ذرا احساس ہے
کیا تجھے عورت کی مظلومی کا چنداں پاس ہے
اے خدا تیرے جلال و منزلت کی خیر ہے
کیا عدالت کو تری عورت سے کوئی بیر ہے
کیا یہ چیخیں آہ و نالے تجھ تلک جاتے نہیں
کیا ترے ارض و سماں یہ دیکھ تھراتے نہیں
کیا ترے نزدیک عورت کی یہی اوقات ہے
کیا تری خلقت میں شامل مرد ہی کی ذات ہے
اے خدائے دو جہاں اے مالک ہر دو سرا
تو تو وہ ہے بن کہے سنتا ہے جو دل کی پکار
تجھ تلک پہنچی نہ کیوں پھر اس کی آہوں کی پکار
ہم تو سنتے ہیں بڑی سب سے عدالت ہے تری
ظالم و بے رحم لوگوں سے عداوت ہے تری
پھر بھی اتنے ظلم پر کیوں آسماں پھٹتا نہیں
اس تری دنیا سے آخر ظلم کیوں گھٹتا نہیں
ظلم بڑھتا جا رہا ہے ظلم بڑھتا ہی رہا
خوف گھٹتا جا رہا ہے خوف گھٹتا ہی رہا
اے خدائے دو جہاں اے مالک ہر دو سرا
مرد کے سینے میں یارب تو نے دل رکھا بھی ہے
اس کی تقدیروں میں لفظ معتدل رکھا بھی ہے
اس کی آنکھوں میں حیا اور شرم کیوں ڈالی نہیں
اس کی نیت کیوں ہوس سے حرص سے خالی نہیں
بھر گیا ہے دل مگر اس کی ہوس بھرتی نہیں
اس کے وحشی پن کی آخر بھوک کیوں مٹتی نہیں
جانور اس کو کہیں یا پھر کہیں شیطان ہے
اے خدا یہ کون ہے انسان ہے حیوان ہے
اے خدائے دو جہاں اے مالک ہر دو سرا
کیا اسی دن کے لیے ہوا کو یاں لایا گیا
کیا اسی دن کے لیے آدم کو بہلایا گیا
کیوں اسی کے جسم و جاں کے ساتھ کھیلا جائے گا
کیوں اسی کے خواب کو خواہش کو ریلا جائے گا
کیوں لباس اس کا سر بازار اتارا جائے گا
کیوں اسی کو مار کر دریا میں پھینکا جائے گا
کیوں تجھے اس کی یہ لاچاری نظر آتی نہیں
کیوں مدد تیری طرف سے اس کو دی جاتی نہیں
اے خدائے دو جہاں اے مالک ہر دو سرا
کون ہے اس کی بتا آخر رگ جاں سے قریب
کس نے لکھا ہے بتا آخر یہ عورت کا نصیب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.