Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دار و رسن

محمد علی تشنہ

دار و رسن

محمد علی تشنہ

MORE BYمحمد علی تشنہ

    عجیب کوچۂ رشک جناں تھا دہلی کا

    بہشت کہتے ہیں جس کو مکاں تھا دہلی کا

    دماغ بر سر ہفت آسماں تھا دہلی کا

    خطاب خطۂ ہندوستاں تھا دہلی کا

    غضب ہے اس کو کوئی شادماں نہ دیکھ سکا

    زمیں نہ دیکھ سکی آسماں نہ دیکھ سکا

    ہزاروں زلف پری وش کے یاں تھے سودائی

    ہزاروں میکش و میخوار و مست و صہبائی

    شراب عیش پلاتا تھا چرخ مینائی

    قبول کرتے تھے اس در پہ سب جبیں سائی

    جو آتا تھا سو وہ ہو رہتا تھا اسی گھر کا

    زمیں کی ناف ہے کعبہ ہے بطن‌ مادر کا

    وہ تخت سلطنت و بارگاہ سلطانی

    کہ جس میں بیٹھتے تھے آ کے ظل سبحانی

    پروں سے سر پہ ہما کرتا تھا مگس رانی

    بجا اس اوج پہ تھا دعویٰ سلیمانی

    ہر ایک قصر کو دعویٰ تھا طاق کسریٰ کا

    دماغ عرش پہ تھا قلعۂ‌ معلےٰ کا

    زحل کی آنکھ پڑی اتفاق سے ناگاہ

    تمام ہو گیا تاراج ملک و مال اور جاہ

    کہ اس سے ہو گئے بد تر غریب شاہنشاہ

    رعیت اس کی ہوئی اس سے بھی زیادہ تباہ

    وہ ساہوکار نہ تھا جس کی ساکھ میں بٹا

    اب اس کے نام پہ لگتا ہے لاکھ میں بٹا

    ملا یہ حکم کہ سب لوگ یاں سے ٹل جائیں

    اسی میں خیر ہے جو شہر سے نکل جائیں

    دبی ہے بقچی تو دکھلا کے یاں بغل جائیں

    جو کچھ ہے چھوڑ یہاں صاحب دول جائیں

    نہ سر پہ ٹوپی ہے ان کے نہ پاؤں میں جوتی

    بغل میں طوطے کا پنجڑا نبی جی بھیجو جی

    یہاں جو آن کی دیکھی تو دار کی صورت

    وہ دار کہئے جسے ذوالفقار کی صورت

    مٹا دی چشم زدن میں ہزار کی صورت

    نظر پڑی نہ کسی بیقرار کی صورت

    برنگ تیر شہاب آگ میں جلے لاکھوں

    سپرد دار و رسن ہو گئے گلے لاکھوں

    مأخذ:

    Urdu Me.n Qaumi Shayri ke 100 Saal (Pg. E-93 B-94)

      • اشاعت: 1959
      • ناشر: پرکاشن شاکھا محکمۂ اطلاعات، یو پی
      • سن اشاعت: 1959

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے