دسمبر آ گیا ہے
یہاں گوریچ چلتی ہے
تو جیسے روح چھلتی ہے
زمستاں آ کے رکتا ہے
تو اک اک روم دکھتا ہے
تعجب ہے مجھے پل پل
کہ اب کے سال وادی میں
ہماری شال وادی میں
سنہری دھوپ اب تک پربتوں پر رقص کرتی ہے
ابھی تک سانس کی حدت لبوں کو گرم رکھتی ہے
رگوں میں خون کا دوران اب تک ہے دوپہروں سا
خزاں کے زرد چہرے پر شرارت اب بھی باقی ہے
ابھی پتوں نے اپنے اطلسی جامے نہیں بدلے
سسکتی اور ڈرتی شامیں اب تک مسکراتی ہیں
کیوں اب تک تتلیاں پھولوں پہ آ کہ کھلکھلاتی ہیں
ابھی نیلاہٹیں بادل کے دھوکے میں نہیں آئیں
ابھی تک ندیاں کہرے کے قبضے میں نہیں آئیں
گزشتہ سب مہینوں کو
یہاں سارے مکینوں کو
عجب یہ فکر لاحق ہے
یہ اپنے سرد لہجے میں ابھی تک کیوں نہیں بولا
یہ اس بے درد لہجے میں ابھی تک کیوں نہیں بولا
دسمبر آ گیا ہے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.