Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک نظم زمین والوں کے نام

غیاث متین

ایک نظم زمین والوں کے نام

غیاث متین

MORE BYغیاث متین

    ہوا

    کچھ ایسی چلی

    کہ خیمے اکھڑ گئے ہیں

    غبار ایسا غبار اٹھا

    کہ دھول آنکھوں میں جم گئی ہے

    چراغ بھڑکیں

    تو اس میں ان کا قصور کیا ہے

    شمال کی

    یہ ہوا

    کچھ ایسی شریر و گستاخ ہے

    جو بڑھ کر

    بھڑکنا ان کو سکھا رہی ہے

    جلا رہی ہے

    بجھا رہی ہے

    ہوا کچھ ایسی چلی کہ خیمے اکھڑ گئے ہیں

    چراغ دونوں طرف کے

    اتنے بجھے کہ منظر بھی رو رہا ہے

    سیہ لبادوں سیہ نقابوں کا راج ہر سو

    کہاں کے رشتے

    کہاں کے ناطے

    کہاں کے رشتے

    کہاں کی منزل

    چہار سمتوں میں آگ ایسی لگی ہوئی ہے

    بجھانا چاہیں تو بڑھ رہی ہے

    بدن دریدہ کفن دریدہ پڑی ہیں لاشیں

    سروں میں آنچل

    بدن سے زیور

    اتر چکے ہیں

    جو خواب دیکھے تھے ہم نے

    وہ خواب

    مر چکے ہیں

    ہوا کچھ ایسی چلی

    کہ خیمے اکھڑ گئے ہیں

    ہمارے گھر میں

    تمام چہرے تھے روشنی کے

    تمام چہروں سے روشنی تھی

    وہ غیر تھے

    یہ سنا تھا میں نے

    مگر میں جن پر

    دعائیں پڑھ پڑھ کے پھونکتا تھا

    وہ میرا گھر پھونکنے کو آئے

    بس ایک دیوار بیچ میں تھی

    وہی پڑوسی بھی آئے

    خنجر بہ دست آئے

    یہ کیسی آندھی چلی کہ چہرے بگڑ گئے ہیں

    ہوا کچھ ایسی چلی کہ خیمے اکھڑ گئے ہیں

    نہ کوئی اخبار ہے جو کیچڑ میں

    پھول جیسا کھلا ہوا ہے

    نہ ریڈیو میں خبر کی خوشبو

    نہ دور درشن میں ہے وہ منظر

    جو مجھ کو

    سورج دکھا رہا ہے

    عجیب موسم ہے

    شہر دل میں

    نہ آنکھ اپنی

    نہ کان اپنے

    نہ پاؤں اپنے

    پتہ نہیں ہم

    یہ کس کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں

    یہ کس کے کانوں سے سن رہے ہیں

    یہ کس کے پیروں سے چل رہے ہیں

    عجیب موسم ہے

    شہر دل میں

    زمین والے

    تو آج دیکھو

    خلا میں گردش لگا رہے ہیں

    سمندروں پر

    مکان اپنے بنا رہے ہیں

    اسی زمیں پر

    رشی منی اور نبی بھی آئے

    تمام سمتوں کے واسطے

    اک پیام لائے

    مگر میں اتنا ہی جانتا ہوں

    زمین پر ظلم ہو رہا ہے

    زمین والے ہی کر رہے ہیں

    وہاں فرشتوں نے سچ کہا تھا

    مگر خدا جانتا تھا سب کچھ

    وہ آج بھی جانتا ہے سب کچھ

    وہ آسماں سے

    اتر کے

    اپنی زمیں پر آئے گا

    بھول جاؤ

    وہ اپنے ہاتھوں سے

    اس زمیں کو

    حسیں بنائے گا

    بھول جاؤ

    چراغ اندر چراغ تم ہو

    کتاب اندر کتاب تم ہو

    سوال اندر سوال تم ہو

    جواب اندر جواب تم ہو

    خدا نے روز ازل

    جو دیکھا تھا خواب تم ہو

    تمہیں سے عزت

    تمہیں سے نکہت

    تمہیں سے شہرت

    زمین کی ہے

    بچا سکو تو

    اسے بچا لو

    زمین والو

    زمین والو

    مأخذ:

    (Pg. 106)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے