Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فاصلے کی آگ

محمد سالم

فاصلے کی آگ

محمد سالم

MORE BYمحمد سالم

    ہر طرف ہے سناٹا

    ہر طرف ہے ویرانہ

    آسماں کے پردے میں

    ماہتاب پنہاں ہے

    ظلمتوں کے سائے میں

    کائنات ویراں ہے

    لاپتہ ہوا بھی ہے

    لاپتہ پرندے بھی

    بے صدا اداسی میں

    برگ‌ و شاخ بھی چپ چپ

    ہر شجر خموشی میں

    درد سے ہے پژمردہ

    خواب گاہ میں میری

    خامشی بلا کی ہے

    ہوں تو میں تھکا ماندہ

    پھر بھی نیند عنقا ہے

    میں نڈھال بستر پر

    اک خلش لیے اندر

    محو ہوں خیالوں میں

    چاہتوں میں تم میری

    بس گئی تھیں خوشبو سی

    ہجر کا لباس اپنا

    ہر گھڑی مہکتا تھا

    میرے گلشن جاں کی

    اک کلی تھیں تم گویا

    یاد ہے مجھے اب تک

    وہ تمہاری خلوت کا

    اولین منظر بھی

    شوق دید لایا تھا

    کھینچ کر مجھے تم تک

    تشنہ تشنہ نظروں سے

    تم کو میں نے دیکھا تھا

    تم کو میں نے چاہا تھا

    بے قرار ہو کر بھی

    تم کو میں نے سوچا تھا

    تشنگی کے صحرا میں

    پا لیا جو تم کو تو

    شوق کے سحابوں میں

    پیاس بھی بجھائی تھی

    سر خوشی کی مستی میں

    کائنات رقصاں تھی

    جسم و جاں کی خوشبو سے

    باغ دل بھی مہکا تھا

    غم تمہارا میرا تھا

    میرا غم تمہارا تھا

    قربتوں کے سائے میں

    مشترک تھیں سوچیں بھی

    رنج و شادمانی میں

    تھے شریک دونوں ہی

    زندگی کی راہوں میں

    ہم سفر تھیں تم میری

    آتے جاتے موسم کا

    سلسلہ رہا جاری

    ماہ و سال بھی کتنے

    ساتھ ساتھ گزرے تھے

    یک بہ یک ہواؤں سے

    رنگ آسماں بدلا

    پھر رتوں کے چہرے پر

    رنگ زرد بھی آیا

    وقت ہی کے ہاتھوں میں

    ہو گئے کھلونا ہم

    آس کی کرن لے کر

    اپنی اپنی آنکھوں میں

    درد کے سفر پر ہم

    نکلے جانب منزل

    اور بھی کئی آنکھیں

    درمیاں ہمارے تھیں

    جن میں جھلملاتی سی

    اک کرن تھی فردا کی

    دور دیس میں ہم نے

    شہر خواب جب دیکھا

    جینے کی للک اپنی

    ہو گئی تھی دوبالا

    کیف آرزو بن کر

    زندگی بھی رقصاں تھی

    آتی جاتی لہروں میں

    بہہ گئے اچانک ہم

    ہو گئی شکستہ سی

    کشتی تمنا بھی

    پہلی بار بچھڑے تھے

    ایک دوسرے سے ہم

    تم ادھر شکستہ پا

    میں ادھر شکستہ دل

    بیچ میں سمندر ہے

    فاصلہ طوالت کا

    درمیاں ہمارے ہے

    وقت ہی کے ہاتھوں میں

    جیسے ہم کھلونا ہوں

    درد کا تماشا اب

    روز دیکھتا ہوں میں

    تم بھی اس تماشے کو

    روز دیکھتی ہوگی

    اب یہ سوچتا ہوں میں

    ہم خزاں رسیدوں کو

    کب تلک جلائے گی

    فاصلے کی آگ آخر

    مأخذ:

    (Pg. 98)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے