Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہمیں مجرم نہیں کہنا

یاور جواد ماجد

ہمیں مجرم نہیں کہنا

یاور جواد ماجد

MORE BYیاور جواد ماجد

    وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں

    وہی ہیں سلسلے اور دائرے بھی بے کراں ہیں

    یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جا رہے تھے

    ہمارا خواب تھا

    ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے

    مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے کر آ گئے ہیں

    یہ ہم خوابوں کے دریاؤں سے اک جھرنا

    بس اک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے

    جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے

    مگر جانے کہاں سے ہم چتا کی آگ لے آئے

    ہمارے دل کا یہ جوالا مکھی پھٹنے کو آیا ہے

    کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سرخیاں دیکھیں

    تو ہم اس سمت کو لپکے

    مگر رستوں کے پیچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا

    کہ ہم زردی کو چہروں پر لپیٹے لوٹ آئے

    وہی ہیں سلسلے اور فاصلے اور اس پہ اپنے دل میں چلنے کی تمنا بھی

    مگر عمر معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے

    یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے

    مگر ایسا نہیں کرنا

    ہمیں مجرم نہیں کہنا

    کہ ہم گرہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

    خدایا ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے

    ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے

    مأخذ:

    پاکستانی ادب-1994 (Pg. 102)

      • ناشر: اکیڈمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے