اکیسویں صدی میں دم توڑتی ہوئی اک نظم
مجھے معلوم تھا بابا
بڑے بازار جاؤ گے
تو میرے واسطے کوئی
کھلونا لے کے آؤ گے
ارے بابا جو لائے ہو
کھلونا ہو نہیں سکتا
میں اس کے خوف سے گھر میں بھی تنہا سو نہیں سکتا
یہ اک بندوق ہے جو آگ کے شعلے اگلتی ہے
اسی سے زندگانی کی ہمیشہ شام ڈھلتی ہے
اسی بندوق کے ڈر سے یہاں ہنستا نہیں کوئی
یہ بستی کیسی بستی ہے جہاں بستا نہیں کوئی
جہاں بستا نہیں کوئی
پرندے خوف کے مارے نہیں پرواز کر پاتے
گلی میں کھیلنے بچے پلٹ کر اب نہیں آتے
مجھے بازار سے بابا بدل کر اور شے لا دو
کھلونا جس میں چاہت ہو
محبت کا ترانہ ہو
مگر بابا
تری چپ سے یہ میں نے راز جانا ہے
مجھے ایسا کھلونا اپنے ہاتھوں سے بنانا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.