عشق ماہی بغیر آب
جاگتے سوتے یہ خیال آیا
تجھ کو سوچا تو یہ سوال آیا
تم کہاں اور میں کہاں جاناں
فاصلے کیوں ہیں درمیاں جاناں
یوں ملے ہم کہ مل نہیں پائے
پھول حسرت کے کھل نہیں پائے
برق پر نامہ بر سوار ہوا
دھوپ میں ابر سایہ دار ہوا
پھر تعلق کے تار ٹوٹ گئے
ہم پہ صدمے ہزار ٹوٹ گئے
بے بسی کی عجیب شام آئی
زندگی مثل انتقام آئی
پھر تری دید کی سعادت ہو
وقت کو عید کی بشارت ہو
غیر ممکن ہے اس طرح ہونا
غم نہانا ہے داغ ہے دھونا
مسئلہ آ گیا ہے پانی کا
یعنی دریا کی بے زبانی کا
قربت جاں کے مشک ہوتے ہی
اک سمندر کے خشک ہوتے ہی
درد صحرا نصیب ہے اپنا
ایک وحشت رقیب ہے اپنا
سلسلہ دور تک سراب کا ہے
عشق ماہی بغیر آب کا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.