جشن
کرگسوں کی حکومت سے سہمے ہوئے
بلبلوں کی سریلی سی آواز میں
ایک مدت سے اہل چمن نے یہاں
کوئی نغمہ یہ سچ ہے سنا ہی نہیں
پھول کے جسم پر رنگ و بو کی جگہ
گہری گہری خراشیں ہیں دکھ درد کی
پتے پتے پہ شبنم نہیں پیار کی
پتے پتے پہ ہے گرد نفرت جمی
بوٹے بوٹے پہ اب کوئی بھونرا نہیں
بوٹے بوٹے پہ رقص شرر عام ہے
ایسی وحشت کے عالم میں سچ مچ یہاں
روپ سارا خزاں میں بہاروں کا خود
منتقل ہو گیا مسکراتے ہوئے
جام و مینا میں ساقی بھی مے کی جگہ
پیاس ہی پیاس بھر بھر کے دینے لگا
اک ولی اپنے سچے سخن بھول کر
زندگی کی بہاروں کو کھونے لگا
میر و غالب بھی غزلوں سے بچنے لگے
شاعری کی جگہ خامشی اوڑھ کر
داغ بھی داغ سینے پہ لینے لگے
میر انیسؔ اور سوداؔ بھی چپ ہو گئے
مرثیہ اور قصیدہ بھی چپ ہو گئے
حالیؔ و جوشؔ و اقبالؔ بھی دیکھیے
خشک سورج کے لب کو بھگونے کا فن
بھول کر مقصد شاعری ذہن میں
عیش و عشرت کی باتوں کو بونے لگے
ایسی وحشت کے عالم میں اے ہم نفس
کون جشن بہاراں کی باتیں کرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.