گھنے بھیانک اندھیروں کی تہیں چیر کر
اک کالا پھول نکل آیا ہے
کومل ملائم نم پنکھڑیاں
جیسے اس بپتا کی ماری کے
آنسوؤں سے تر گال
جس کا پتی رن بھومی سے نہیں لوٹا
چتا میں جلتے صندل کی سی مہک ہے اس میں
سوگوار درد کا پیکر پھول
اس کی معصوم رنگت
سہانی خوشبو
کہاں کھو گئی
ان ٹہنیوں شاخوں کے بھیتر
جیون رس اب بھی دوڑ رہا ہے
لیکن اس میں لہو کی ملاوٹ ہے
ان کا جو یانگ تسی اور ہوانگ ہو
گنگا اور جمنا کے میدانوں سے
اپنی کھیتیاں کھلیان
بیوی بچے گھر بار
سب تج کر
ان سنسان وحشت ناک
ہمالیائی برفانی صحراؤں میں آئے
اور اچانک موت کے شکنجے میں پھنس گئے
اور اب اپنے ہمکتے بچوں کو
گودیوں میں کھلانے
اپنی چھوٹی بہنوں کا بیاہ رچانے
ڈھولک گیتوں کو سننے
یہاں سے کبھی نہ واپس جائیں گے
اس دھرتی میں انہیں کا خون جذب ہے
اور یہ کالا پھول
شاید دنیا کے سب سے دردانگیز المیہ کی نشانی ہے
اگر یہ سچ ہے کہ انسان کی کہانی
آدم کے گناہ
اور ہابیل کے ہاتھوں قابیل کے قتل سے
شروع ہوتی ہے
تو یہ گناہ اور جرم تو
اس سے بھی بڑا ہے
کہ چینی بھائی ہندوستانی کا
ہندوستانی چینی کا خون بہائیں
یہ بات جھوٹی نہیں سچی ہے
ہزار بار سو ہزار بار
کہ ہم دونوں بھائی بھائی ہیں
اور جب لاکھوں کروڑوں
ایک عرب انسانوں نے
ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بلند کیا تھا
تو وہ آواز اتنی ہی سچی تھی
جتنی شاکیہ منی کی وانی
جو بھارت اور چین
دونوں میں گونجی
اور جس کے جادو سے راکھ سونا بن گئی
کیا کرودھ اور لوبھ
گھنا اور ہنا کے اپاسک
ستیہ کو استیہ ثابت کر دیں گے
بربرتا کی کالی آندھیاں
منشیتا اور کرونا کی
مشعلوں کو بجھا دیں گی
گاندھی کو قتل کر دو
لیکن اس کی مہان آتما
سدا کوہ نور کی طرح
جگمگاتی رہے گی
مأخذ:
پگھلا نیلم (Pg. 100)
- مصنف: سجاد ظہیر
-
- ناشر: نئی روشنی پرکاشن، نئی دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.