شام پشاور کا اسٹیشن
سج کر بنا ہوا تھا دلہن
اسٹیشن پر بھیڑ بڑی تھی
سامنے خیبر میل کھڑی تھی
لوگ ہی لوگ تھے اندر باہر
کالے گورے افسر نوکر
قلی اٹھائے ٹرنک اور بستر
نمبر دے کر بھاگے اندر
بابا نے ہم کو ٹھہرایا
ٹکٹ کراچی کا کٹوایا
بھیڑ بھڑکا شور شرابہ
پیچھے ہم اور آگے بابا
اپنی بغل میں بستہ دابے
اک ڈبے میں آن براجے
چلی پشاور سے جو گاڑی
نو شہرہ جنکشن پر ٹھہری
چلے یہاں سے کھا کر بھنڈی
رات کو پہنچے راولپنڈی
ٹھہرے یہاں ہم آدھا گھنٹہ
ریل نے بھی یاں انجن بدلا
پنڈی میں تھی بارش کم کم
ریل چھکا چھک پہنچی جہلم
مینہ جہلم میں چھاجوں برسا
بجلی چمکی بادل گرجا
آخر اس برسات سے گزرے
صبح ہوئی گجرات سے گزرے
اتر گئی گجرات میں خالہ
آگے آیا گوجرانوالہ
میل نے گوجرانوالہ چھوڑا
اور لاہور سے رشتہ جوڑا
ہم نے پی لاہور میں چائے
پھر چھک چھک ملتان کو آئے
گرمی تھی ملتان میں بھائی
آگے ریل نے ریت اڑائی
ریل چھکا چھک آگے دوڑی
ریت اڑاتی پہنچی روہڑی
یاں سکھر کے بسکٹ چکھے
پھر ہم ٹنڈو آدم پہنچے
چلا یہاں سستا کر انجن
آیا حیدرآباد اسٹیشن
اونٹ یہاں کہلائے ڈاچی
آگے چلے تو آیا کراچی
رستہ ختم تھا ریل کا آگے
وہ جا سوئی اور ہم جاگے
ہم نے بغل میں دابا بستہ
اور لیا باہر کا رستہ
لوگوں نے سامان اٹھوائے
کاریں ٹانگے رکشے آئے
بگڑے جھگڑے چکے کرائے
اپنے اپنے پتے بتائے
کوئی مسافر ہوٹل پہنچا
خیر سے کوئی گھر کو آیا
جو جو نام نہیں گنوائے
وہاں وہاں ہم سو کر آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.