کیوں نہ ہو
آنکھ والو حسن وحدت کا تماشا کیوں نہ ہو
دل ہے تو راز حقیقت کی تمنا کیوں نہ ہو
اپنی منزل کی طرف گرم سفر ہے کائنات
آدمی پھر منزل مقصد کا جویا کیوں نہ ہو
دل میں ہر ذرہ کے پنہاں ہے تمنا کا شرار
قلب انساں حامل سوز تمنا کیوں نہ ہو
اک نہ اک امید کی مشعل جلانا ہے تو پھر
شمع ایماں ہی کا دل افروز اجالا کیوں نہ ہو
اک نہ اک در کی جبیں سائی پہ قسمت زیست کی
کر دے سب سے بے نیاز اک ایسا سجدہ کیوں نہ ہو
جب گزرنا ہے سہاروں ہی پر اپنی زندگی
جو نہ دے سکتا ہو دھوکا وہ سہارا کیوں نہ ہو
تشنگی میں چند قطروں پر قناعت کس لئے
دامن ہمت حریف جوش دریا کیوں نہ ہو
عارضی پرتو ہے جس کا غنچہ و گل سے عیاں
اس بہار جاں فزا ہی کی تمنا کیوں نہ ہو
منتظر جب ایک فردا کے ہیں سب امروز و دوش
زندگی کو اہتمام فکر فردا کیوں نہ ہو
آنکھ کے جلوؤں کو جب حاصل ہے اوج اعتبار
ہوش والو اعتبار قلب بینا کیوں نہ ہو
ناخدا بھی جس پہ رکھتا ہے نظر طوفان میں
ناؤ والو رخ اسی کی سمت اپنا کیوں نہ ہو
دل کے ہر ذرہ میں ہے اک عالم نو جلوہ گر
آنکھ والو اس جہاں کا بھی تماشا کیوں نہ ہو
جان ہی ٹھہری بہائے ناز تو اے دوستو
چھوڑ کر ذروں کو سورج ہی کا سودا کیوں نہ ہو
جب کسی ان دیکھی طاقت پر بھروسہ ہے ضرور
دہر والو پھر خدا ہی کا بھروسہ کیوں نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.