اس قدر کرم کیوں ہے اتنی کیوں نوازش ہے
کیا یہ کوئی سازش ہے
تیرگی ہوا سے کیوں رابطہ بڑھاتی ہے
کیوں ہوا چراغوں کی پیٹھ تھپتھپاتی ہے
کیوں نہیں سمجھتے ہم
چاہتوں میں رشتوں میں کچھ نمی ضروری ہے
زندگی ضروری ہے
بار گیلے کپڑوں کا الگنی اٹھاتی ہے
اور سوکھ جائیں تو یہ ہوا اڑاتی ہے
کیوں نہیں سمجھتے ہم
وقت کی منڈیروں پر گھاس اگنے لگتی ہے
کائی جمنے لگتی ہے
زخم اپنے سینے کے بوڑھی چھت چھپاتی ہے
آنسوؤں کی بارش سے نیو بیٹھ جاتی ہے
کیوں نہیں سمجھتے ہم
مہرباں سمندر بھی بادبان و لنگر بھی
اور ہم شناور بھی
ناخدا کی کوشش بھی راستہ بناتی ہے
پھر بھی کیوں کنارے پر ناؤ ڈوب جاتی ہے
کیوں نہیں سمجھتے ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.