میں سن سکتا ہوں پھولوں کو
میں چکھ لیتا ہوں رنگوں کو
میں خوشبو گنگناتا ہوں
صبا کو دیکھ لیتا ہوں
میں چھو سکتا ہوں نکہت کو
ہواؤں کا تخاطب ہوں
بگولوں سے الجھتا ہوں
میں تپتی ریت پر خوابوں کی اک دنیا بساتا ہوں
اسی کے گیت گاتا ہوں
میں سورج کی تمنا ہوں
تحیر کا ہوں دل دادہ
میں دیواروں میں دروازہ
ستارے مجھ میں بستے ہیں
میں صحرا زاد ہوں جاناں
کہیں بھی خون گرتا ہے
میں سرخی تھام لیتا ہوں
ورق پر لفظ چن چن کر
میں نظموں میں ڈبوتا ہوں
کہیں میں بیج بوتا ہوں
غزل کا سرخ رنگوں میں
جہاں یہ رنگ اگتے ہیں
زمیں کے زخم بھرتے ہیں
زمیں کے خشک چہرے کو
میں تر کرتا ہوں اشکوں سے
پھر اشکوں کے سمندر سے نئے موتی نکلتے ہیں
کہیں میں ریت کے سینے پہ کچھ نکتے اگاتا ہوں
وہ نکتے جب پنپتے ہیں
ستارے مجھ میں بستے ہیں
میں صحرا زاد ہوں جاناں
حسیں خوابوں کے مندر میں
کئی لاشیں مجھے اب نصب کرنی ہیں
کئی ارمان بونے ہیں
انہی آنکھوں کے میلے میں کئی ادراک کھونے ہیں
بیاض روز و شب پر بھی
فقط زنجیر لکھنی ہے
یہی تحریر لکھنی ہے
سلگتے ہیں وہ تینوں دور تنہائی
جنہیں دنیا زمانوں سے یہاں منسوب کرتی ہے
وہاں پر ایک منظر ہے
فقط اک ریتیلا منظر
فقط اک بے کراں منظر مری پلکوں سے چپکا ہے
ستارے مجھ میں بستے ہیں
میں صحرا زاد ہوں جاناں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.