آج اپنی آخری منزل پہ ہے فکر رسا
آج آخر عقدۂ ذوق سخن وا ہو گیا
کیا خبر تھی ہائے ایسا بھی زمانہ آئے گا
ایک دن کہنا پڑے گا لخت دل کا مرثیہ
زندگی دشوار ہے بے روئے بے ماتم کئے
یا خدا شاعر بنایا تھا اسی دن کے لئے
پھول دل کا ایسا مرجھایا ذرا خوشبو نہیں
نام ہے آرام جس کا اب کسی پہلو نہیں
ہوں اگر رونے پہ مائل آنکھ میں آنسو نہیں
ضبط کرنا چاہیں تو جذبات پر قابو نہیں
کیا بتائیں کس پریشانی میں کس مشکل میں ہیں
ایک مرجھائے ہوئے غنچے کے کانٹے دل میں ہیں
کیا کرے گا کوئی اندازہ ہمارے حال کا
لٹ گیا سرمایۂ تاب و تواں دو سال کا
آگ سی دل میں لگی ہے غم ہے یہ کس لال کا
اشک خونی ہے کہ شعلہ آتش سیال کا
تن پھنکا جاتا ہے لیکن لب پہ آہ سرد ہے
اے مرے اللہ میرے دل میں کیسا درد ہے
آہ اے آرام جاں تسکین دل لخت جگر
آہ اے گھر کے اجالے آہ اے نور نظر
رات جنگل کی اداسی ہر طرف تاریک گھر
چین سے سونا تمہارا ہو کے بے خوف و خطر
اس دلیری کے تصدق اس قناعت کے نثار
خاک کے بستر پہ کیوں کر آ گیا تم کو قرار
کچھ نہ پوچھو کیا گزرتی ہے دل ناشاد پر
اب مدار زندگی ہے نالہ و فریاد پر
مضطرب دل رو رہا ہے محنت برباد پر
خون کے آنسو نچھاور ہیں تمہاری یاد پر
کچھ ہمارے حال کی تم کو خبر ہے یا نہیں
کس سے پوچھیں دل کی آہوں میں اثر ہے یا نہیں
اب نظر میں رنگ ہی بدلا ہوا محفل کا ہے
ہر نفس پیغام گویا آخری منزل کا ہے
غم شکستہ خاطری کا سامنا مشکل کا ہے
زندگی کی شمع کیا کیجے یہ نقشہ دل کا ہے
جیسے اک رنگین شیشے کو کچل کر پھینک دو
یا شگفتہ پھول چٹکی سے مسل کر پھینک دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.