Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرثیہ گوپال کرشن گوکھلے

چکبست برج نرائن

مرثیہ گوپال کرشن گوکھلے

چکبست برج نرائن

MORE BYچکبست برج نرائن

    لرز رہا تھا وطن جس خیال کے ڈر سے

    وہ آج خون رلاتا ہے دیدۂ تر سے

    صدا یہ آتی ہے پھل پھول اور پتھر سے

    زمیں پہ تاج گرا قوم ہند کے سر سے

    حبیب قوم کا دنیا سے یوں روانہ ہوا

    زمیں الٹ گئی کیا منقلب زمانہ ہوا

    بڑھی ہوئی تھی نحوست زوال پیہم کی

    ترے ظہور سے تقدیر قوم کی چمکی

    نگاہ یاس تھی ہندستاں پہ عالم کی

    عجیب شے تھی مگر روشنی ترے دم کی

    تجھی کو ملک میں روشن دماغ سمجھے تھے

    تجھے غریب کے گھر کا چراغ سمجھے تھے

    وطن کو تو نے سنوارا کس آب و تاب کے ساتھ

    سحر کا نور بڑھے جیسے آفتاب کے ساتھ

    چنے رفاہ کے گل حسن انتخاب کے ساتھ

    شباب قوم کا چمکا ترے شباب کے ساتھ

    جو آج نشو و نما کا نیا زمانہ ہے

    یہ انقلاب تری عمر کا فسانہ ہے

    رہا مزاج میں سودائے قوم خو ہو کر

    وطن کا عشق رہا دل کی آرزو ہو کر

    بدن میں جان رہی وقف آبرو ہو کر

    رگوں میں جوش محبت رہے لہو ہو ہو کر

    خدا کے حکم سے جب آب و گل بنا تیرا

    کسی شہید کی مٹی سے دل بنا تیرا

    وطن کی جان پہ کیا کیا تباہیاں آئیں

    امنڈ امنڈ کے جہالت کی بدلیاں آئیں

    چراغ امن بجھانے کو آندھیاں آئیں

    دلوں میں آگ لگانے کو بجلیاں آئیں

    اس انتشار میں جس نور کا سہارا تھا

    افق پہ قوم کے وہ ایک ہی ستارا تھا

    حدیث قوم بنی تھی تری زباں کے لیے

    زباں ملی تھی محبت کی داستاں کے لیے

    خدا نے تجھ کو پیمبر کیا یہاں کے لیے

    کہ تیرے ہاتھ میں ناقوس تھا اذاں کے لیے

    وطن کی خاک تری بارگاہ اعلیٰ ہے

    ہمیں یہی نئی مسجد نیا شوالا ہے

    غریب ہند نے تنہا نہیں یہ داغ سہا

    وطن سے دور بھی طوفان رنج و غم کا اٹھا

    حبیب کیا ہیں حریفوں نے یہ زباں سے کہا

    سفیر قوم جگر بند سلطنت نہ رہا

    پیام شہ نے دیا رسم تعزیت کے لیے

    کہ تو ستون تھا ایوان سلطنت کے لیے

    دلوں میں نقش ہیں اب تک تری زباں کے سخن

    ہماری راہ میں گویا چراغ ہیں روشن

    فقیر تھے جو ترے در کے خادمان وطن

    انہیں نصیب کہاں ہوگا اب ترا دامن

    ترے الم میں وہ اس طرح جان کھوتے ہیں

    کہ جیسے باپ سے چھٹ کر یتیم روتے ہیں

    اجل کے دام میں آنا ہے یوں تو عالم کو

    مگر یہ دل نہیں تیار تیرے ماتم کو

    پہاڑ کہتے ہیں دنیا میں ایسے ہی غم کو

    مٹا کے تجھ کو اجل نے مٹا دیا ہم کو

    جنازہ ہند کا در سے ترے نکلتا ہے

    سہاگ قوم کا تیری چتا میں جلتا ہے

    رہے گا رنج زمانہ میں یادگار ترا

    وہ کون دل ہے کہ جس میں نہیں مزار ترا

    جو کل رقیب تھا ہے آج سوگوار ترا

    خدا کے سامنے ہے ملک شرمسار ترا

    پلی ہے قوم ترے سایۂ کرم کے تلے

    ہمیں نصیب تھی جنت ترے قدم کے تلے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے