موت اور عشق
دیدۂ افلاک نے دیکھے بہت انقلاب
عہد کہن کے نشاں محو ہوئے مثل خواب
ایک فریب نظر وہم سکون و ثبات
زیست ہے اک مستقل کشمکش اضطراب
جن کی نگاہوں سے تھی شورش بزم جہاں
موت کی آغوش میں آج ہیں وہ محو خواب
جن کی بلندی سے تھی رفعت گردوں خجل
ہیں وہ رواق بلند آج تباہ و خراب
وقت کے ہر نقش کا موت ہی انجام ہے
ہیں اسی قانون میں جکڑے ہوئے شیخ و شاب
موت کے بے رحم ہاتھ چھین لیا تو نے آہ
کتنے سروں کا عروج کتنے دلوں کا ثبات
نیش اجل سے مگر ان کو نہیں کچھ گزند
عشق کی لذت سے ہیں جن کے جگر کامیاب
جن کی نگاہوں میں ہے عشق کا سر نہاں
عشق ہے اصل کمال عشق ہے عین ثبات
کیا ہے اجل پردۂ ہستی کے اٹھنے کا نام
عشق اٹھا دیتا ہے پہلے ہی سے یہ حجاب
موت سے ہوتی ہے دور روح کی آلودگی
عشق سے پاتی ہے روح اور سوا آب و تاب
موت ملا دیتی ہے ذرہ کو خورشید سے
عشق بنا دیتا ہے ذرہ ہی کو آفتاب
ان کے لئے موت اک ہوش کا پیغام ہے
زندگی مستعار جن کی ہے مانند خواب
روح اگر پہلے ہی عشق سے بیدار ہو
بے اثر اس کے لئے موت ہو یا انقلاب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.