Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرا وطن یہی ہے

ساجدہ زیدی

میرا وطن یہی ہے

ساجدہ زیدی

MORE BYساجدہ زیدی

    یہ دل کی راہیں اداس کیوں ہیں امید کے قافلے کہاں ہیں

    ہم اپنے کوچوں میں اجنبی ہیں ہم اپنے ہی گھر میں میہماں ہیں

    یہی ہے مرکز ہمارے ہر خواب آرزو کا

    یہی وطن ہے یہی ہے مسکن وفا امید و جستجو کا

    یہی وطن ہے اسی کے کوچوں نے خواب نو دیکھنے سکھائے

    اسی کے ذروں کی چاہتوں نے

    ہمارے بچپن کی نرم و نوخیز خواہشوں کو

    جواں عزائم کی آنچ بخشی

    اسی کے سینے کی دھڑکنوں نے

    ہمارے دل کے عمیق گوشوں کو روشنی کی نئی کرن دی

    ہم اس کی گودی کی راحتوں کو

    یہاں سے ٹھکرا کے کیسے جاتے

    ہم اس کی ممتا کا سوز کھو کر

    سکون و آرام کیسے پاتے

    اس اجنبی دیس کی فضاؤں میں دل کا آہنگ کیسے ملتا

    ان اجنبی وادیوں کے دامن میں چاہ کے پھول کیسے کھلتے

    یہ وارداتیں یہ نقش الفت اگر کہیں ہے تو بس یہاں ہیں

    اساڑھ کے ہلکے ہلکے بادل

    جھڑی وہ بھادوں کی دوپہر کی

    وہ کویلوں کے گداز نغموں میں رس بدلتی ہوئی رتوں کا

    وہ نیلگوں صبح کی فضائیں

    وہ دل نشیں شام کے دھندلکے

    ہمارے آموں کے باغ بانسوں کے جھنڈ دریاؤں کے کنارے

    ہمارے سرسوں کے کھیت پیپل کی چھاؤں ذرات کے اشارے

    ہمارا دامن پکڑ رہے تھے

    یقیں سے جھولی کو بھر رہے تھے

    وہ پوچھتے تھے تمہارے گھر ان مسرتوں کے سوا کہاں ہیں

    ہمارے گیتوں کی مست تانیں

    ہمارے میلوں کی رنگ رلیاں

    ہمارے تہواروں کی ادائیں

    ہمارے فنکاروں کی صدائیں

    ہمارے رستوں میں آ گئی تھیں

    وہ کہہ رہی تھیں یہاں کے ذرے بھی اس تمدن کے پاسباں ہیں

    وہ تنگ گلیوں میں زندگی کی حقیقتیں پا برہنہ بچے

    وہ اپنی معصوم انکھڑیوں میں حیات کی تلخیاں چھپائے

    خراج انصاف مانگتے تھے

    وہ اپنی میراث مانگتے تھے

    ہزار تاریکیوں کے دامن میں پلتی یہ زندگی کی کلیاں

    پکارتی تھیں کسی سحر آفریں مذاق عمل کی طالب

    یہ تنگ و تاریک بستیاں ہیں یہ سب ادھوری کہانیاں ہیں

    ہمیں نے جمنا کے ساحلوں کو حسیں عمارات سے سجایا

    ہمیں نے پتھر کے سخت سینے کو نرم ایلورا کی دھڑکنیں دیں

    ہمیں نے رنگینیاں نچوڑیں تو نقش اجنتا کے بن گئے تھے

    جو حسن و جوش عمل سمویا تو لال قلعے سنور گئے تھے

    ہمیں نے مرمر کی سرد سل کو

    امر کیا تاج کی تڑپ دی

    یہیں کی مٹی نے فکر غالبؔ کو عزم اقبالؔ کو نکھارا

    دلوں کی ٹیگورؔ کی نواؤں نے بخشا وجدان کا شرارہ

    ہمیں نے کالیؔ کی شاعری میں

    سمویا شیراز اور ایراں کا لہجۂ جذب و کیف و مستی

    ہمیں نے اس سرزمین گوتمؔ کو شعر کا بانکپن دیا تھا

    ہمیں نے تہذیب ہند کو یہ مزاج گنگ و جمن دیا تھا

    یہاں کے افکار و علم و آئیں ہماری عظمت کے رازداں ہیں

    نہیں ہے اپنے وطن کی مٹی تو کون اپنا نگاہ باں ہے

    نہیں ہیں گر یہ حسیں فضائیں تو کون اپنا مزاج داں ہے

    نہیں ہے گر یہ ہماری منزل تو پھر بتاؤ تمہیں کہاں ہے

    یہ کس کے سفاک ہاتھ نے توڑ ڈالا اس گھر کا ساز الفت

    یہ کس نے مذہب کا نام لے کر مٹا دی معراج آدمیت

    کہاں ہیں جوش و وفا و ہمت

    کہاں ہے اجداد کی حمیت

    ہیں کیوں لٹیروں میں مائیں بہنیں

    یہ کون اس گھر کے پاسباں ہیں

    کہاں ہو چارہ گرو بتاؤ کہاں اخوت کے کارواں ہیں

    کہاں ہو اے رہبرو دکھاؤ بجھے بجھے راہ کے نشاں ہیں

    ہم اپنے کوچوں میں اجنبی ہیں ہم اپنے ہی گھر میں میہماں ہیں

    مأخذ:

    جوئے نغمہ (Pg. 5)

    • مصنف: ساجدہ زیدی
      • ناشر: انڈین اکیڈمی، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے