aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مقابلہ

عدیم ہاشمی

مقابلہ

عدیم ہاشمی

MORE BYعدیم ہاشمی

    دلچسپ معلومات

    (دستاویز اکتوبر نومبر 1973ء)

    زمین ویتنام

    میں بھی اک سر زمیں کا باسی ہوں

    جو ابھی تک مری ہے

    کل کا پتہ نہیں ہے کہ میرے پاؤں مری زمین پر پھسل رہے ہیں

    کوئی بڑے زور دار ہاتھوں سے

    دور بیٹھا

    زمین کا پلو پکڑ کے اپنی طرف اسے کھینچتا ہی جاتا ہے

    میں کھنچا جا رہا ہو پلو سمیت

    ٹھہروں تو میرے پاؤں پھسل رہے ہیں

    میں دوسری سمت منہ اگر کر کے بھاگ نکلوں

    زمین کھنچ جائے پاؤں سے تو خلا میں گرنے کا ڈر ہے مجھ کو

    زمین ویتنام

    اس سے پہلے کہ میرے پیروں تلے سے میری زمین کھنچ جائے

    آج تجھ سے مقابلہ اپنا کر رہا ہوں

    کہ مجھ میں تجھ میں جو مشترک قدر ہے وہ جنگی صعوبتیں ہیں

    مرا بھی دشمن وہی ہے جو تجھ سے لڑ رہا ہے

    تری زمین پر بھی جنگ جاری

    مری زمیں پر بھی جنگ جاری

    اگر کوئی فرق ہے تو یہ ہے کہ اپنے دشمن کے سامنے تو بہادری سے ڈٹا ہوا ہے

    میں جھک گیا ہوں

    یہاں ذرا مختلف ہے صورت

    کہ میرا دشمن ڈٹا ہوا ہے

    میں سر بھی اپنا جھکا چکا ہوں

    میں اس کی منت بھی کر چکا ہوں

    مگر وہ بے رحم مارے ہی جا رہا ہے

    کسی طرح مانتا نہیں ہے

    بس اپنی منوائے جا رہا ہے

    زمین ویتنام

    تو نے اتنے برس گنوائے

    کروڑوں افراد اپنے مروائے

    تو نے منت ہی کی نہ سودا کیا نہ فوجوں کا سر جھکایا

    عجب کہ تو نے رگوں میں خون کی بجائے بارود بھر لیا ہے

    تو باؤلی ہے

    یہ دیکھ بارہ کروڑ کے چند مالکوں کا بھی کارنامہ

    انہیں بھی اک جنگ آ پڑی تھی

    انہوں نے سولہ دنوں میں وہ کر دیا جو صدیوں میں بھی نہ ہوتا

    جھکا دیے اپنے لاکھ فوجی

    مٹا دئے اپنے لاکھ فوجی

    مٹا دئے اپنے نصف جھگڑے

    کٹا دیا اپنا نصف نقشہ

    جو نصف باقی تھا اور سولہ دنوں کا جھگڑا تھا گر یہ رہتا

    کیوں نہ ہوتا

    کہ ہر بڑی قوم کام ایسے کیا ہی کرتی ہے جو کہ تاریخ کے لئے باب کھولتے ہیں

    یہ کارنامہ

    یہ صرف تاریخ کا نہیں ہے

    یہ کارنامہ تو ہے جغرافیہ بھی جس نے بدل دیا ہے

    بہت بڑی قوم کا یہ کرتب ہے

    قوم سوئی بنانا اپنے لیے جو تو جانتی نہیں ہے

    یہ قوم بارود جس کی خاطر بڑے ممالک بنا رہے ہیں

    بہت بڑی قوم ہے بہت ہی

    جہاز کے کارخانے بیرون ملک جس کے بنے ہوئے ہیں

    وہ جس کی خاطر کہ بیوک امپالا فورڈ آرڈر پہ بن رہی ہے

    مشین انجن ملوں کا سامان کارخانے کے سارے اوزار

    ریڈیو ٹیلیفون ٹیلی ویژن ٹریکٹر مشین گن توپ

    غرض ایک ایک شے اس کی اس کے کمی خود اپنے ملکوں میں اس کی خاطر بنا رہے ہیں

    بہت بڑی قوم ہے کہ اس کے بڑے گھروں میں تو سر کا شیو بھی

    تن کے کپڑے بھی اور جوتے بھی اس کے باہر سے آ رہے ہیں

    زمین ویتنام

    تیری مائیں تو اپنے بچے کے قد کو دیکھتی ہیں کہ اس کی لمبائی کار سے تو بڑی نہیں ہے

    زمین ویتنام

    بیٹیاں تیری اپنے شانوں پہ اپنے شیروں کا بوجھ لے کر پاؤں کی صورت ہیں ایستادہ

    مگر یہاں بیٹیاں نہیں ہیں

    یہاں تو تحفے ہیں

    جو کہ باہر سے آئے سوداگروں کی خاطر تواضع کرنے کے واسطے کر رہے ہیں

    زمین ویتنام

    تیرے بیٹے تو تیرے وارث ترے محافظ ہیں

    فوج وہ بن رہے ہیں تیری کہ تجھ پہ جانیں نثار کر دیں

    زمین ویتنام

    تیرے بیٹے تو تیرے وارث ترے محافظ ہیں

    فوج وہ بن رہے ہیں تیری کہ تجھ پہ جانیں نثار کر دیں

    یہاں پہ بیٹی نہیں تو بیٹے بھی اس زمیں نے نہیں جنے ہیں

    یہاں تو تنخواہ کی ضرورت ہے فوج میں ہو کہ موج میں ہو

    زمین ویتنام

    تیرا آدم کہاں سے آیا تھا

    بیٹیاں تیری کون سی بے مثال حوا کی بیٹیاں ہیں

    زمین ویتنام تیری مٹی کہاں کی ہے جو کہ

    تیرے دشمن نے چاند تسخیر کر لیا پر نہ تجھ کو جیتا

    ترا خدا کون سا خدا ہے

    مرے خدا کا سلام اس کو

    مگر مرے ویتنام جو فرق تجھ میں مجھ میں ہے اور تھوڑا سا دور کر دوں

    تری لڑائی تو صرف دشمن سے ہے کہ جو تیرے سامنے ہے

    مری لڑائی ہے دشمنوں سے جو سامنے ہو کے بھی مرے سامنے نہیں ہیں

    میں دشمنوں سے بھی لڑ رہا ہوں

    میں دوستوں سے بھی لڑ رہا ہوں جو دوستی کا لباس پہنے

    مری لڑائی اڑوسیوں سے پڑوسیوں سے

    مری لڑائی ہے اپنے گھر میں

    مری لڑائی سمندروں کے ادھر بھی قائم

    مری لڑائی ہے جسم سے بھی

    مری لڑائی ہے ذہن سے بھی

    مری لڑائی تو سامراجی نظام سے ہے

    جہاں جہاں سامراج ہے میں وہاں وہاں پر ڈٹا ہوا ہوں

    میں اپنی غربت سے اپنی مظلومیت سے آگاہ ہو چکا ہوں

    مری یہ غربت یہ میری مظلومیت ہی قوت ہے

    وہ سپاہی نہیں ہے میرا جو اپنے ہیلمٹ کے بوجھ سے سر جھکا چکا ہے

    جو صرف تنخواہ کے لیے میرا شیر جرنیل بن گیا ہے

    میرا یہ قلاش میرا بیکار میرا مزدور وہ سپاہی ہے

    جو مری فوج بن رہا ہے

    زمین کے پلو کو اپنی اس تازہ فوج کی بے پناہ قوت سے تھام کر

    اب میں اپنی جانب گھسیٹ لوں گا

    گھسیٹ لوں گا میں ان کو بھی وہ جو دوسری سمت اپنے آہن کے ہاتھ لے کر

    مری زمین اپنی سمت لالچ سے کھینچتے ہیں

    زمین ویتنام گر تری سر زمیں پہ بارود کی تہیں بچھ گئی ہیں تو اس زمیں

    کے کھیتوں میں بھی فقط گولیاں اگیں گی

    یہاں بھی پیڑوں کو اب پھلوں کی بجائے بم ہی لگیں گے

    اس سر زمیں پہ بھی آگ ہی کے دریا بہیں گے

    جن میں کہ کوئی کاغذ کی ناؤ وہ سامراج کی ہو کہ میری اپنی

    نہ چل سکے گی

    زمین ویتنام میں بھی اک سر زمیں کا باسی ہوں

    اس زمیں کا سلام تجھ کو

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے