میر تو نہیں ہوں میں
جانے پھر بھی ایسا کیوں
روز روز ہوتا ہے
رات کے سمندر میں
چاند جو کہ مچھلی ہے
موتیاں اگلتا ہے
اور ایک موتی سے
جل پری نکلتی ہے
اور مجھ سے کہتی ہے
کیوں اداس رہتے ہوں
''نیند کیوں نہیں آتی''
کون یاد آتا ہے
کس کا غم ستاتا ہے
الفتوں کے مارے ہو
چاہتوں کے پیاسے ہو
رات اک سمندر ہے
جس کی موج ظلمت میں
عاشقوں کے نالوں کا
ان کہے سوالوں کا
زہر خوب ہوتا ہے
سیر ہو کے پی لینا
پھر گلے لگا لینا
موت کی دلہن کو تم
دفعتاً یہ ہوتا ہے
آرزو کی چوکھٹ پر
دل کے ٹوٹ جانے سے
درد چیخ اٹھتا ہے
عشق! تیری توبہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.