مری نوائے پریشاں درون گنبد عیش
بھٹک رہی ہے کسی دل کی آرزو بن کر
کبھی یہ بربط و چنگ و رباب کی صورت
مچل رہی ہے خنک انگلیوں کی جنبش میں
کبھی جراحت پیکاں سے مضطرب ہو کر
تمام تیروں کو ترکش سے کھینچ لاتی ہے
کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح
سمائی جاتی ہے شفاف آبگینوں میں
سلگ رہی ہے جو شمع مشام جاں بن کر
طراز گل کی جواں مشک بیز راتوں میں
یہ چاندنی کی قبا اوڑھ کر بھٹکتی ہوئی
سلگتے تاروں کی مے گوں صراحیاں لے کر
یہ شبنمی سی فضا اوس کھائے غنچہ و گل
یہ پھوٹتی ہوئی کرنیں یہ دھوپ یہ کہسار
یہ بڑھتے گھٹتے سے سائے یہ ہاتھ اٹھائے ہوئے
دعائیں مانگتے پیکر ہیں یا کہ ہیں اشجار
مری نوائے پریشاں سے مضطرب کیوں ہیں