نیا سال
کب ہوئی حاصل ہمیں تاریخ نامے سے نجات
پھر نئے موسم کی آہٹ پھر نئی خوشبو کی بات
پھر چمن میں دیدنی ہوگی نئے پھولوں کی عید
پھر نئے پتوں کا استقبال اور خوش آمدید
پھر وہی خوابوں کے کاروبار نیندوں کے عذاب
پھر وہی رستہ وہی بے کیف منظر اور سراب
پھر وہی ٹک ٹک گھڑی کی اور پرانے فاصلے
پھر وہی آفس کی جلدی پھر وہی شکوے گلے
پھر وہی سانسوں کی دھکم پیل ہوگی ریل میں
ہر کوئی جاتا ہوا محسوس ہوگا جیل میں
خواستہ نا خواستہ کرتے ہوئے سب کچھ قبول
پھر نظر آئیں گے راہوں میں وہی خوش رنگ پھول
پھر وہی دل پھر وہی دھک دھک وہی جینے کا روگ
پھر وہی سب جانے پہچانے مگر انجان لوگ
پھر وہی ہوٹل وہی کافی وہی سگریٹ سموک
پھر وہی اپنے وہی اپنوں سے ہوگی نوک جھونک
پھر وہی اک آسماں اور پھر وہی اپنی زمیں
سب بدلتا یوں ہے جیسے کچھ بدلتا ہی نہیں
سب وہی کردار ہوں گے تیر اور شمشیر کے
سب وہی پچھلے قرینے ہوں گے رانجھا ہیر کے
سال نو ہم خوب واقف ہیں ترے آغاز سے
زخم دیرینہ ہرے ہوں گے نئے انداز سے
بس نیا محسوس ہوتا ہے نئی پوشاک سے
اور گزرتا جا رہا ہے جسم اپنی خاک سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.