Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیند میں چلتی موت

علی محمد فرشی

نیند میں چلتی موت

علی محمد فرشی

MORE BYعلی محمد فرشی

    میں نے دیکھی نہیں

    خواب بنتی ہوئی مخملیں انگلیاں

    جن کا لمس گداز ایک دن

    وقت کے سرد گالوں سے بہتا ہوا

    میرے ہونٹوں پہ آیا

    تو صدیوں کی نمکینیاں

    سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں

    ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں

    وہ کیا سلسلہ تھا

    جو اک گود سے گور تک ریشمی تار سا تن گیا

    جس پہ چلتے زمانے

    خدا وند اعلیٰ کے احکام رحمت اٹھائے ہوئے

    رقص کرتے گزرتے

    تو مٹی پہ نقش و نگاران غم مسکراتے

    تجھے یاد آتے

    تجھے یاد کرتے ہوئے

    یوں گزرے

    کہ جیسے کسی بھید بھاؤ بھری چاندنی رات سے

    چاند کا بانکپن

    بادلوں کے لڑکپن کے گالے اڑاتے ہوئے

    خواب لبریز پریوں سے

    چھپ چھپ کے گزرے

    یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیعت

    یہ چھپنے چھپانے کی ساری اذیت

    کوئی جھیلتا ہے

    جو تو نے اکیلے میں جھیلی

    میں کتنے دنوں بعد آیا ترے پاؤں چھونے

    حساب اس خجالت کا کرتے ہوئے

    کتنے آنسو گرے

    میں نہیں گن سکا

    بھیگتے پھیلتے لفظ اعداد جب بھی سمندر بناتے

    ترے نام کی ناؤ مجھ کو کنارے لگاتی

    مگر یہ کنارہ کوئی کہکشاں تو نہیں تھا

    کہ میں تیرے لا وقت ساحل پہ

    خود اپنے پاؤں کے مٹتے نشاں دیکھ کر مسکراتا

    وہ گنتی کا معکوسی زینہ تھا

    تحت الثری تک رواں رینگتی آبنائے تھی

    آنکھوں کا کاریز تھی

    تیری محبت کی وہ داستاں

    جس کو لکھنے کی کوشش میں لاکھوں ورق

    میں نے کالے کیے

    مگر ایک لمحہ بھی میرے قلم پر

    وہ خوش رنگ الہام بن کر نہ اترا

    جسے تیرے ہونٹوں کی تصدیق ملتی

    بڑی سے بڑی بات کو

    ایک بھیگی ہوئی مسکراہٹ میں کہنے کا تجھ کو سلیقہ تھا

    اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں

    کس قدر میں اکیلا ہوں

    تجھ کو خبر ہے

    بتا دے مجھے بھی کوئی اسم اسرار

    جس کی تمنا لیے سب پرندے گئے ساتویں سمت

    لیکن کوئی آج تک مڑ کے آیا نہیں

    پھول ہونٹوں کے مردہ زمانے پہ رکھوں تو

    خوشبو تری

    گل بدن بن کے جاگے

    ترے سانس میں سانس لینے کی راحت

    مری یاد کے باغ میں

    ایک جادو زدہ نیم خوابیدہ

    شہزادی زندگی کی طرح منتظر ہے

    یہاں اپنے ہونے سے کس کو مفر ہے

    کوئی نیند میں جاگنے کی اذیت نہیں جانتا

    اپنی جنت کا منظر مرے ملگجے خواب پر کھول دے

    کوئی شیریں تکلم مرے زہر میں گھول دے

    فاصلہ نیند اور موت کے درمیان

    اپنی موجودگی سے بنا

    کر عطا معجزاتی ہنر

    میں تو نوٹوں کی گنتی میں مصروف

    اندھے زمانے کے ہاتھوں کی

    وہ میل ہوں

    جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے