پچھلے جنم کی ایک نظم
مجھے لگتا ہے
زمین کے کسی گمنام منطقے میں
ہم کبھی ساتھ ساتھ رہتے تھے
مجھے اب تمہارا نام یاد نہیں
تمہاری شکل بھی یاد نہیں
مگر یہ لگتا ہے
کہ شاید کئی صدیاں پہلے
کسی پچھلے جنم کی سیڑھیوں پر
ہم ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے
وہ سیڑھیاں کہاں تھیں
اور پچھلا جنم کہاں ہوا تھا
مجھے تو یاد نہیں
شاید تم کو بھی یاد نہ ہوگا
ہاں بس اتنا یاد ہے
ایک چھوٹے سے گھر میں
ہم سر شام دیوتا کے لئے دیے جلاتے تھے
اور دیوں کے قریب ایک پنچھی رہتا تھا
جو بادل برکھا اور دھوپ کے گیت گاتا تھا
گیت سنتے سنتے
اور دیے بجھنے سے پہلے ہی
ہم نمدوں پر سو جاتے تھے
اور پھر ہم دونوں مل کر
ایک جیسا کوئی خواب دیکھتے تھے
بہت سے تالابوں جنگلوں
اور باغوں کا خواب
صبح دم انگنائی میں سورج اتر آتا تھا
پنچھی پیڑوں پر
اور ایک بادل چھت پر بیٹھ جاتا تھا
پھر ہم چوکھٹ پر بیٹھ کر
رنگوں کی بازگشتیں سنتے ہوئے
ایک تالاب کو دیکھتے رہتے تھے
مجھے لگتا ہے یہ ہم ہی تھے
جو تالاب کی طرف دیکھتے اور بازگشتیں سنتے تھے
ہاں شاید ہم ہی تھے
اب یہ یاد نہیں اس سمے ہمارے نام کیا تھے
مأخذ:
تسطیر (Pg. 184)
-
- ناشر: بک کارنر، پاکستان
- سن اشاعت: 2017
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.