قہقہے
بھیا کی کھا کے مار لگاتا ہوں قہقہے
جب دیکھتے ہیں یار لگاتا ہوں قہقہے
دل میں ہے امتحان کا غم کس طرح بھلاؤں
ہو ہو کے بے قرار لگاتا ہوں قہقہے
جب دیکھتا ہوں خواب کہ اسکول جل گیا
خوش ہو کے بار بار لگاتا ہوں قہقہے
کرتا ہے ڈھینچوں ڈھینچوں مرے علم کا گدھا
ہوتا ہوں جب سوار لگاتا ہوں قہقہے
ناراض ہو کے گھر سے جو کوئی نکال دے
جا کر ندی کے پاس لگاتا ہوں قہقہے
سر پر اگر پڑیں کبھی یاروں کی سینڈلیں
بالوں کو میں سنوار لگاتا ہوں قہقہے
مجھ کو بہت ہے قہقہہ نمبر کا انتظار
کرتا ہوں انتظار لگاتا ہوں قہقہے
ہر روز میں کھلونے کے دفتر کے آس پاس
جا جا کے پانچ چار لگاتا ہوں قہقہے
اور پوچھتے ہیں جب چچا یوسف یہ کون ہے
میں رو کے زار زار لگاتا ہوں قہقہے
الیاس ڈانٹے ہیں جو کھڑکی سے جھانک جھانک
میں ہنس کے دس ہزار لگاتا ہوں قہقہے
ادریس بھاگتے ہیں مرے پیچھے لٹھ لئے
جاتے ہیں جب وہ ہار لگاتا ہوں قہقہے
یونس جو پھینکتے ہیں کبھی مجھ پہ بیلچہ
میں بن کے خاکسار لگاتا ہوں قہقہے
جب زینت آپا کرتی ہیں مجھ کو نصیحتیں
میں سن کے بے شمار لگاتا ہوں قہقہے
پاگل ہوں امتحان کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ مجھ کو ناز تھا وہ دل نہیں رہا
اس غم میں بار بار لگاتا ہوں قہقہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.