Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

راگ یگ کی نظمیں

شفیق فاطمہ شعریٰ

راگ یگ کی نظمیں

شفیق فاطمہ شعریٰ

MORE BYشفیق فاطمہ شعریٰ

    باجا کبھی نہ تھمنے والا

    شیون سوکھی پھلیوں کا

    گرد آلود ہوا کے جھکڑ

    اتنی اتھل پتھل جاری

    سناٹا پھر بھی سناٹا

    اک کھنچی کمان

    وہ کب ٹوٹا کب پھوٹا

    حاشیۂ دیوار کی صورت

    ڈھیر سنہرا

    پیلے سوکھے پتوں کا

    چرمرا کرتا ضرر سے عاری

    خاک میں رلتی چرمر اس کی سنتا ہوا

    کھڑکی سے چپکا تھا کھڑا وہ بے پروا

    ہر آہٹ کے ہر آواز کے ڈھانچے میں

    رینگ رہا بیری بھیدی

    گہنا اتنا پور پور سنہرا لادے

    ٹہنی ٹہنی جوگن پیراگن

    چپ کی داد کمانا چاہیں

    سوم لتائیں

    راگنیاں سب

    کیا دیپک کیا میگھ

    راگ یگ بیتا

    کب بیتا راگ یگ

    ترے گاؤں کی چھاؤں

    تیرا سنگھاسن اڑن کھٹولا

    کن ٹیلوں کے تلے

    بچے کھیل رہے ہیں اپنا

    شوریکار کا کھیل پرانا

    راگ یگ کہے دھوپ جہاں

    پیلی ہے تو کبھی دھانی

    بہتا پانی

    روئیدہ الجھاؤ

    خس و خاشاک دھتورا ناگ پھنی

    اور وہیں چمپا کی شاخ بھی

    سرتابی سے پھولے پھلے

    آہن تیز کڑی دھوپوں کا

    اور بھی کچھ پگھلے

    تپتا خون ہے پی جائے گا

    سوم امرت کا یہ گھونٹ

    لو چلتی رہی

    قطرہ قطرہ پسینہ کب کا سوکھ چکا

    تازہ دلی کے ہلکورے آنکھوں میں مگر

    اب بھی باقی

    دھول بھری پگڈنڈی بلکھاتی مڑتی ہے

    رقص کناں ہے بگولے میں اک برگ سرخ

    کوہستانی سلوں کے بیچ چمکتا پانی

    اک جھاڑی سے اڑانیں بھرتی

    بالا بالا پروں کی جھلمل

    دوسری جھاڑی میں روپوش

    اتنی سی اک بات اسی سے

    سونا سونا دل کا افق

    رنگ بھرا نیرنگ بھرا

    جل میں ڈوبے عکس اڑے

    تتلی کے پروں سے

    وہ جل تھا

    نرموہی

    ہلچل سے جو باز رہا

    دل تو نہ تھا

    کب اس کی تھاہ میں جھلکا ہوا

    دمکی دمکی ہن برساتی دھند کا اک پورب

    تتلی کے پروں سے اڑ پایا

    اک پکار سہانی تھی وہ

    فاصلے شنوائی کے لے جس کو درکار

    تب درد کی لو تیز ہوئی

    میری اپنی سیما تھی

    میرا اپنا دوش

    اس سے نکلے سب جھگڑے دکھڑے

    دنیا کہتی ہے ہم بھی

    کہتے ہیں اپنی اپنی گاتھا کا اسے حرف آغاز

    نافہ بہ نافہ خوشبو چھنتی رہی

    سہج سبھاؤ میں اپنائیت کا رچاؤ رچاتی

    مگر کسوٹی کے پتھر میں جب ڈھل جاتی

    تب ٹکراؤ اٹل

    تب سہنا گھاؤ پہ گھاؤ

    مگر اف کہنا عار مگر

    اف کہنا ہار

    تب بربادی

    تخت سلیماں تھا جیسے برباد رہا

    اپنی خوشی سے کون اس کا

    اپنی مرضی سے پڑاؤ

    کہرا چھاؤنی چھانے آیا دیوگری پر

    آناً‌ فاناً دیوگری

    سر بہ فلک اک روئی کا ڈھیر

    دھنکی بھی نداف کی پھرتیلی تھی

    اور نداف بھی تیز

    ایں ہم آں ہم دیں ہم جاں ہم

    رفت ہی رفت کی دھن پر گالے اڑتے ہوئے

    آندھی نے دیکھے آندھی کو ہانکے کی سوجھی

    لیکن چھپے مزاحم وہ پیچ و خم کڑی چٹانوں کے

    کب ہانکے گئے

    کتنی بار ہوا ایسا

    سلسلہ مست الست یہ قائم

    نیلاہٹ کے عدم کے پس منظر سے ابھرتا

    حیراں حیراں آنکھوں کو دکھلائی دیا

    گھوم رہا ہے پروانہ

    چکرایا بے صدا ہو کے گرا

    پھر چاندی چاندی راکھ ہوا سمٹی

    بکھرے بکھرے پر وہ جڑے

    پھر بہکی بہکی اڑان بھری

    ٹکراتا ہے فانوس سے

    شمع تمنا

    ٹکرانے دے اسے

    آخر اس کا اپنا بھی اک

    فانوس حباب آسا ہے خواب آسا

    وہ جتنا چکنا چور اتنا ہی

    نور ظہور کا عالم اس سے پھٹا پڑتا

    کب ہو پائی یہ شکستگی پوری

    مکتی

    وہ شگفتگی پوری

    یوں اک پل

    جھونک دیا جاتا ہے اس میں

    اب جب تب سے وارستہ

    من مانا بہاؤ

    تب تم بن دوجا بے ہمتا

    کون اس کے جینے مرنے کا

    پھر مر کر جی اٹھنے کا جواز

    کل جگ کے پاس جگ کے کھیتوں سے پھوٹے

    گیت رہٹ کا

    سیرابی ہی اس کی لے

    رت رت نیا رہے لوح و قلم تیرے

    سرمد سرگم

    کہاں اگم ترا کہاں اگم

    تیرا سبوچہ گہوارہ ترا

    ہر روز روشن

    تجھ کو ساجے عالم عالم ہم آہنگی

    لیکن اپنی ترنگ کے ساتھ

    بن چڑیاں بے روک اڑانیں

    بے بندش چہچہے

    سنگت میں پوربی نوا کی

    ہرے بھرے زمزمے

    گھلی ملی ان میں اک کوک

    مسلسل سہہ ضربی

    دیتی ہے ان دیکھی کسی ہدہد چڑیا کا پتہ

    یہ اپنی پہچان کی رت کے پکھیرو

    اونچی گھاس میں چھپ کے نوا پیرا

    چپ ہو جائیں

    تب بھی گونج کے آنگن میں

    رم جھم برسے جانا جاری

    ہار سنگھار کی کلیوں کا

    پنکھ ہما کے کھلتے رہے اور جڑتے رہے

    افشاں کے بکھراؤ میں دھیرے دھیرے اجاگر ہوتے ہوئے

    سیمابی کرے

    پنپ سکے تو پنپے انساں

    نر ناری میں وا ماندہ وہ نشوونما

    سورج مکھی کشیدہ قامت

    رعنائی در رعنائی کھلتا ہوا امکاں

    جتنا پینے اتنا اور پنپنے کا ارمان کرے

    اپنی ہی بینائی کی توسیع سی

    پل پل تازہ نمود فضاؤں میں

    پینے ورنہ

    پھر کیا ہے نغمے کی اساس

    ورنہ تند تکرار بھی

    چوب بھی تار بھی

    راکھ ستاروں کی

    جھڑتی ہوئی پیہم سرد انفاس

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے