Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رات سنسان ہے

مصطفی زیدی

رات سنسان ہے

مصطفی زیدی

MORE BYمصطفی زیدی

    میز چپ چاپ گھڑی بند کتابیں خاموش

    اپنے کمرے کی اداسی پہ ترس آتا ہے

    میرا کمرہ جو مرے دل کی ہر اک دھڑکن کو

    سالہا سال سے چپ چاپ گنے جاتا ہے

    جہد ہستی کی کڑی دھوپ میں تھک جانے پر

    جس کی آغوش نے بخشا ہے مجھے ماں کا خلوص

    جس کی خاموش عنایت کی سہانی یادیں

    لوریاں بن کے مرے دل میں سما جاتی ہیں

    میری تنہائی کے احساس کو زائل کرنے

    جس کی دیواریں مرے پاس چلی آتی ہیں

    سامنے طاق پہ رکھی ہوئی دو تصویریں

    اکثر اوقات مجھے پیار سے یوں تکتی ہیں

    جیسے میں دور کسی دیس کا شہزادہ ہوں

    میرا کمرہ مرے ماضی کا حقیقی مونس

    آج ہر فکر ہر احساس سے بیگانہ ہے

    اپنے ہم راز کواڑوں کے احاطے کے عوض

    آج میں جیسے مزاروں پہ چلا آیا ہوں

    گرد آلودہ کلنڈر پہ اجنتا کے نقوش

    میرے چہرے کی لکیروں کی طرف دیکھتے ہیں

    جیسے اک لاش کی پھیلی ہوئی بے بس آنکھیں

    اپنے مجبور عزیزوں کو تکا کرتی ہیں

    یہ کتابیں بھی مرا ساتھ نہیں دیتیں آج

    کیٹسؔ کی نظم ارسطوؔ کے حکیمانہ قول

    سنگ مرمر کی عمارت کی طرح ساکت ہیں

    تو ہی کچھ بات کر اے میرے دھڑکتے ہوئے دل

    تو ہی اک میرا سہارا ہے مرا مونس ہے

    تو ہی اس سرد اندھیرے میں چراغاں کر دے

    لکشمی دیوی تو مری بات نہیں سن سکتیں

    مجھ کو معلوم ہے کیا بیت چکی ہے تجھ پر

    میرے چہرے کے سلگتے ہوئے زخموں کو بھی دیکھ

    میری آنکھوں پہ مری فکر پہ پابندی ہے

    میں اسے چاہوں بھی تو یاد نہیں کر سکتا

    تو اسے کھو کے مچل سکتا ہے رو سکتا ہے

    اور میں لٹ کے بھی فریاد نہیں کر سکتا

    اسی آئینے نے دیکھے ہیں ہمارے جھگڑے

    یہی زینہ ہے جہاں میں نے اسے چوما تھا

    ان قمیضوں میں ان الجھے ہوئے رومالوں میں

    اس کے بالوں کی مہک آج بھی آسودہ ہے

    جو کبھی میری تھی انکار پہ بھی میری تھی

    اب فقط بزم تصور میں نظر آتی ہے

    رات بھر جاگ کے لکھی ہوئی تحریروں سے

    اب بھی ان آنکھوں کی تصویر ابھر آتی ہے

    چاندنی کھل کے نکھر آئی ہے دروازے پر

    اوس سے بھیگتے جاتے ہیں پرانے گملے

    کس قدر نرم ہے کلیوں کا سہانا سایہ

    جیسے وہ ہونٹ جنہیں پا کے بھی میں پا نہ سکا

    اے تڑپتے ہوئے دل اور سنبھل اور سنبھل

    یہ تری چاپ سے جاگ اٹھیں گی تو کیا ہوگا

    صبح کیا جانے کہاں ہوتی ہے کب ہوتی ہے

    جانے انسان نے کس وقت یہ نعمت پائی

    میری قسمت میں بس اک سلسلۂ شام و سحر

    میرے کمرے کے مقدر میں فقط تنہائی

    مأخذ:

    kulliyat-e-mustafa zaidii(shahr-e-aazar) (Pg. 103)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے