Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ برنگی ایک چنریا

فیروز ناطق خسرو

رنگ برنگی ایک چنریا

فیروز ناطق خسرو

MORE BYفیروز ناطق خسرو

    جب سے ابا کے چہرے کو

    لکوا مار گیا تھا

    اور دادا کو دل کا دورہ

    زیادہ تر وہ گھر کے اندر رہتے

    آپس ہی میں باتیں کرتے

    وقت بتاتے

    باہر کے سب کام بڑے بھیا کی ذمہ داری

    باغ بغیچے کورٹ کچیری اور پٹواری

    فصل اگاتے ہاری

    اپنے گھر کے مردانے کا حال برا تھا

    ہر کمرے میں کاٹھ کباڑ مکڑی جالے

    کس کو فرصت کون اسے اب دیکھے بھالے

    لیکن اک کمرے کے در پر

    جب دیکھو اک قفل پڑا ہے

    دروازہ بھی خوب بڑا ہے

    اک دن میں نے پوچھ لیا پھر

    آخر اس کے اندر کیا ہے

    ماں ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی

    شس شس شس

    ابا نے بھی راہ دکھائی

    جاؤ بیٹا جا کر کھیلو

    میں نے پیر پٹخ کر پوچھا

    آخر کیا ہے اس کمرے کے اندر

    ہیرے موتی چاندی سونا

    یا پھر کوئی اور کھلونا

    آخر کیا ہے اس کمرے کے اندر

    دادا نے ہنکارا بھر کر

    دھندلے شیشوں کی عینک سے گھور کے دیکھا

    ابا نے پھر ڈانٹ پلائی

    بھیا اور باجی نے بازو پکڑے مجھ کو میرے کمرے میں لا پٹخا

    اک دن بھیا

    شور و غل کی آوازوں کو ساتھ لئے

    کچھ خوفزدہ سے گھبرائے سے گھر میں آ کر

    اپنے کمرے میں گھس بیٹھے

    شور و غل کے ساتھ ہی

    ابا کے اور دادا جی کے ناموں کی تکرار دہائی

    ساتھ میں فریادی کی چیخیں

    جس نے وہ اک بات بتا دی

    جس کو بھیا شرم اور خوف کے مارے

    اپنے منہ سے کچھ دن اور نہ کہتے

    ایسا منظر پہلے بھی ہم دیکھ چکے تھے

    لیکن ابا اور دادا کے غصے

    مال و دولت کی برسات کے ہاتھوں

    فریادی کی چیخیں باہر باہر دفن ہو جاتیں

    لیکن اس دن فریادی کی چیخیں

    لال حویلی کی دیواریں توڑ کے اندر تک آ پہنچی تھیں

    شور شرابہ سن کر بے زاری سے

    ابا نے دادا کو دیکھا

    بیساکھی پر بوجھ کو لادا

    دادا جی دل پکڑے پکڑے

    الٹے قدموں ابا کے قدموں پر چلتے

    آگ اگلتی آنکھیں لے کر مردانے حصے میں پہنچے

    میں بھی چھپتا چھپاتا ساتھ تھا ان کے پیچھے پیچھے

    قفل زدہ کمرے تک پہنچا

    کمرہ بھی اس روز کھلا تھا

    لیکن ان کو ہوش کہاں تھا

    کچھ ہی دیر میں باپ اور بیٹا

    ابا اور دادا ابا

    پتھریلے چہروں کے اوپر لطف و کرم کا خول چڑھا تھا

    ہونٹوں پر مسکان سجائے

    امن کی دیوی کا دیدار کراتی آنکھوں کو ہم راہ لیے

    کمرے سے نکلے

    میں جو کاٹھ کباڑ کے پیچھے

    چھپ بیٹھا تھا

    بیتابی سے خالی کمرے میں جا پہنچا

    اندر میں نے جو کچھ دیکھا

    دیکھ کے اس کو میری آنکھیں صدمے اور حیرت سے

    اپنے حلقوں سے باہر تھیں

    فرش کے اوپر بے ڈھکنوں کے تین بڑے صندوق رکھے تھے

    صندوقوں پر دادا، ابا اور بھیا کے نام لکھے تھے

    پھٹی پرانی اوڑھنیوں سے دادا اور ابا کے

    دونوں ہی صندوق بھرے تھے

    بھیا کے صندوق سے اٹکی رنگ برنگی ایک چنریا

    فرش تلے فریاد کناں تھی

    دادا ابا اور ابا سے

    یا پھر اس سے جو

    اپنا ہے غیر نہیں

    انصاف میں جس کے دیر نہیں اندھیر نہیں

    ہر سو ہاہا کار مچا تھا

    باہر سارا گاؤں جمع تھا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے