رنگ برنگی ایک چنریا
جب سے ابا کے چہرے کو
لکوا مار گیا تھا
اور دادا کو دل کا دورہ
زیادہ تر وہ گھر کے اندر رہتے
آپس ہی میں باتیں کرتے
وقت بتاتے
باہر کے سب کام بڑے بھیا کی ذمہ داری
باغ بغیچے کورٹ کچیری اور پٹواری
فصل اگاتے ہاری
اپنے گھر کے مردانے کا حال برا تھا
ہر کمرے میں کاٹھ کباڑ مکڑی جالے
کس کو فرصت کون اسے اب دیکھے بھالے
لیکن اک کمرے کے در پر
جب دیکھو اک قفل پڑا ہے
دروازہ بھی خوب بڑا ہے
اک دن میں نے پوچھ لیا پھر
آخر اس کے اندر کیا ہے
ماں ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی
شس شس شس
ابا نے بھی راہ دکھائی
جاؤ بیٹا جا کر کھیلو
میں نے پیر پٹخ کر پوچھا
آخر کیا ہے اس کمرے کے اندر
ہیرے موتی چاندی سونا
یا پھر کوئی اور کھلونا
آخر کیا ہے اس کمرے کے اندر
دادا نے ہنکارا بھر کر
دھندلے شیشوں کی عینک سے گھور کے دیکھا
ابا نے پھر ڈانٹ پلائی
بھیا اور باجی نے بازو پکڑے مجھ کو میرے کمرے میں لا پٹخا
اک دن بھیا
شور و غل کی آوازوں کو ساتھ لئے
کچھ خوفزدہ سے گھبرائے سے گھر میں آ کر
اپنے کمرے میں گھس بیٹھے
شور و غل کے ساتھ ہی
ابا کے اور دادا جی کے ناموں کی تکرار دہائی
ساتھ میں فریادی کی چیخیں
جس نے وہ اک بات بتا دی
جس کو بھیا شرم اور خوف کے مارے
اپنے منہ سے کچھ دن اور نہ کہتے
ایسا منظر پہلے بھی ہم دیکھ چکے تھے
لیکن ابا اور دادا کے غصے
مال و دولت کی برسات کے ہاتھوں
فریادی کی چیخیں باہر باہر دفن ہو جاتیں
لیکن اس دن فریادی کی چیخیں
لال حویلی کی دیواریں توڑ کے اندر تک آ پہنچی تھیں
شور شرابہ سن کر بے زاری سے
ابا نے دادا کو دیکھا
بیساکھی پر بوجھ کو لادا
دادا جی دل پکڑے پکڑے
الٹے قدموں ابا کے قدموں پر چلتے
آگ اگلتی آنکھیں لے کر مردانے حصے میں پہنچے
میں بھی چھپتا چھپاتا ساتھ تھا ان کے پیچھے پیچھے
قفل زدہ کمرے تک پہنچا
کمرہ بھی اس روز کھلا تھا
لیکن ان کو ہوش کہاں تھا
کچھ ہی دیر میں باپ اور بیٹا
ابا اور دادا ابا
پتھریلے چہروں کے اوپر لطف و کرم کا خول چڑھا تھا
ہونٹوں پر مسکان سجائے
امن کی دیوی کا دیدار کراتی آنکھوں کو ہم راہ لیے
کمرے سے نکلے
میں جو کاٹھ کباڑ کے پیچھے
چھپ بیٹھا تھا
بیتابی سے خالی کمرے میں جا پہنچا
اندر میں نے جو کچھ دیکھا
دیکھ کے اس کو میری آنکھیں صدمے اور حیرت سے
اپنے حلقوں سے باہر تھیں
فرش کے اوپر بے ڈھکنوں کے تین بڑے صندوق رکھے تھے
صندوقوں پر دادا، ابا اور بھیا کے نام لکھے تھے
پھٹی پرانی اوڑھنیوں سے دادا اور ابا کے
دونوں ہی صندوق بھرے تھے
بھیا کے صندوق سے اٹکی رنگ برنگی ایک چنریا
فرش تلے فریاد کناں تھی
دادا ابا اور ابا سے
یا پھر اس سے جو
اپنا ہے غیر نہیں
انصاف میں جس کے دیر نہیں اندھیر نہیں
ہر سو ہاہا کار مچا تھا
باہر سارا گاؤں جمع تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.