ریٹ غزل
پہلے مکاں کے ریٹ بڑھے پھر غذا کے ریٹ
پھر بڑھتے بڑھتے بڑھ گئے آب و ہوا کے ریٹ
بھیجے ہیں میرے یار نے خط میں بڑھا کے ریٹ
کیسے ادا کروں میں یہ ناز و ادا کے ریٹ
جل جل کے بجھ گیا ہے یہ دل گیس کی طرح
جب ہم نے بل میں دیکھے ہیں بجلی جلا کے ریٹ
گر ہو سکے تو انگلیاں کانوں میں ٹھونس دیں
آتے ہیں گھر میں فون کی گھنٹی بجا کے ریٹ
رفتار میں یہ ریل سے بڑھ کر ہیں تیز رو
کیا بس چلے کہ ریٹ ہیں بس کے بلا کے ریٹ
چاہا شراب چھوڑ دوں کھا کر کوئی دوا
دیکھا تو ہیں شراب سے بڑھ کر دوا کے ریٹ
ارزاں ہے موت زندگی مہنگی ہے دوستو
پوچھو کسی مریض سے دار الشفا کے ریٹ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.